خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
کرتی ہیں، انہوں نے باقاعدہ فارم چھپوا رکھے ہیں، جن پر اپنی انجمن کے کسی فرد کی تصدیق وسفارش پر رقم عنایت کردی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مذکورہ مدات رقومات صاحب بیت المال کے نام پر یا اپنی انجمن کے نام پر لوگوں سے وصول کرتے ہیں اور اپنی تحویل میں لے کر اپنی صواب دید سے غرباء ویتامی وغیرہ پر صرف کرنا، یہ عمل شرعاً درست وجائز ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اموالِ باطنہ (روپیہ، سونا، چاندی وغیرہ) کی زکوٰۃ ہر شخص پر انفرادی طور پر نکالنا مستحب اور بہتر ہے، اور اسلامی حکومت میں بھی کسی شخص کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ ان اموال کی زکوٰۃ اسلامی بیت المال میں جمع کرے۔ (بدائع الصنائع ۲؍۳۵) دوسرے یہ ہے کہ اس دور میں امانت ودیانت کا فقدان ہے اور کوئی ایسی قوت موجود نہیں ہے جو غلط کاروں کو غلطی سے روک سکے؛ اس لئے جب تک کسی ادارے میں زکوٰۃ وصدقات کا مصرف واقعی پہلے سے موجود نہ ہو، (جیسے قیام وطعام والے مدارسِ دینیہ) تو اس ادارہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کا اختیار دینا بڑے مفاسد کا دروازہ کھول دینے کا ذریعہ اور لوگوں کے اموال ضائع کرنے کا سبب بن سکتا ہے، اور محض اجتماعی زکوٰۃ لینے کے لئے ادارے قائم کرنے کی کوشش ممنوع لغیرہ قرار پائے گی، اور اگر بالفرض ایسے ادارے قائم بھی ہوگئے تو زکوٰۃ کی رقم جب تک اپنے صحیح مصرف میں نہ لگائی جائے تو اس وقت تک نہ تو دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوگی اور نہ لینے والے ذمہ سے بری ہوںگے۔ (مستفاد: نظام الفتاویٰ ۱۷۰) ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃ کما مر، لا یصرف إلی بناء نحو مسجد، قولہ: نحو مسجد کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد وکل ما لا تملیک فیہ۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۲۹۱ زکریا)