خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: کچہری میں وکیل کا اس طرح وکالت کرنا کہ اپنے صحیح عمل یا وقت پر مقررہ اجرت لے اور ناحق مقدمہ کی پیروی نہ کرے، تو فی نفسہٖ وکالت جائز ہے، اور اس پر حاصل شدہ آمدنی بھی حلال ہے؛ لہٰذا اس طرح کی آمدنی کسی وکیل کے پاس اتنی ہو جس سے حج فرض ہوجاتا ہے، تو اس کو حج کرنا لازم ہے؛ لیکن اگر عمل معصیت یا وقت واجرت کی تعیین نہ ہو، نیز ناحق مقدمہ کی پیروی یا ظالم کی اعانت ہو، جیساکہ آج کل اکثر وکیلوں کا پیشہ ہے، تو اس طرح وکالت کا پیشہ جائز نہیں؛ اس لئے اس سے ملی ہوئی رقم حرام ہے؛ لہٰذا اس مال پر حج فرض نہیں ہوگا؛ البتہ اگر حاصل شدہ مال حرام سے زائد بقدر استطاعت مال حلال ہو، تو حج فرض ہوجائے گا؛ تاہم اگر کسی نے مال حرام سے حج کرلیا تو فریضہ ساقط ہوجائے گا، مگر حج مقبول کا ثواب نہیں ہوگا، اور ساتھ میں حرام مال خرچ کرنے کا گناہ بھی ہوگا۔ (فتاویٰ محمودیہ ۴؍۲۷۷، ۳؍۲۰۶، امداد الفتاویٰ ۲؍۱۶۰) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یأتي علی الناس زمانٌ لا یُبالي المرئُ ما أخذَ منہ، أمن الحلال أم من الحرام؟ (صحیح البخاري رقم: ۲۰۵۹، بحوالہ: مرقاۃ المفاتیح، کتاب البیوع / باب الکسب وطلب الحلال ۶؍۷ رقم: ۲۷۶۱) لا یجوز أخذ الأجرۃ علی المعاصي …؛ لأن المعصیۃ لا یتصور استحقاقہا بالعقد فلا یجب علیہ الأجر، وإن أعطاہ الأجر وقبضہ لا یحل لہ ویجب علیہ ردہ علی صاحبہ۔ (مجمع الأنہر ۲؍۳۸۴ دار إحیاء التراث العربی بیروت) والإجارۃ علی المعصیۃ باطلۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۵؍۱۳۲ زکریا) ولو خلط السلطان المال المغصوب بمالہ ملکہ فتجب الزکاۃ فیہ ویورث عنہ؛ لأن الخلط استہلاک إذا لم یمکن تمییزہ عند أبي حنیفۃ، وقولہ: أرفق إذ قلما یخلو مال عن غصب، وہٰذا إذا کان لہ مال غیر ما استہلکہ بالخلط منفصل عنہ یوفي دینہ وإلا فلا زکاۃ، کما لو کان الکل خبیثاً۔ کما في النہر عن