خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
ہمارے یہاں ایک صاحب رمضان میں اس لائق ہوئے کہ حج کرسکیں، مگر اس وقت فارم نہیں بھرا جاسکتا تھا، آئندہ سال تک عمر نے وفا نہ کی، توکیا شریعت ان کو گنہگار اور تارکِ حج شمار کرے گی؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہندوستان سے جو شخص حج کو جاتا ہے، وہ پرائیویٹ ٹور کے ذریعہ ذی قعدہ؛ بلکہ ذی الحجہ کے مہینہ میں بھی جاسکتا ہے، اس لئے جس شخص کے پاس حج کے مہینوں (شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن) میں حج کو جانے کی استطاعت اور قدرت ہوجائے اس پر حج فرض ہوجائے گا، اب اگر اس نے کوشش کی؛ لیکن کامیابی نہ ملی، تو وہ گنہگار تو نہ ہوگا؛ لیکن اس پر آئندہ حج کی وصیت ضروری ہوگی؛ تاکہ اس کی وفات کے بعد اس کے مال سے اس کا حج بدل کرایا جاسکے۔ عن ابن عباس والفضل رضي اللّٰہ عنہما أو أحدہما عن الآخر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أراد الحج فلیتعجل، فإنہ یمرض المریض وتضل الراحلۃ وتعرض الحاجۃ۔ (مسند الإمام أحمد بن حنبل ۱؍۳۵۵ رقم: ۳۳۴۰، سنن ابن ماجۃ، المناسک / باب الخروج إلی الحج ۲؍۲۰۷ رقم: ۲۸۸۳، المستدرک للحاکم / المناسک ۲؍۶۳۲ رقم: ۱۶۴۵) فالمحبوس والخائف من السلطان کالمریض لا یجب علیہما أداء الحج بأنفسہما؛ ولکن یجب علیہما الإحجاج أو الإیصاء بہ عند الموت عندہما۔ (غنیۃ الناسک ۲۴ إدارۃ القرآن کراچی، فتح القدیر ۲؍۴۱۷ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۱۸ کوئٹہ، إعلاء السنن ۱۰؍۸ کراچی، البحر الرائق ۲؍۳۱۱ کوئٹہ) علی الفور في العام الأول عند الثاني، وہو الإتیان بہ في أول أوقات الإمکان۔ (درمختار ۳؍۴۵۴ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۶؍۱۰؍۱۴۲۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ