خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر زید نے اپنی طرف سے حج کرانے کی وصیت کی ہے، تو صورتِ مسئولہ میں ان کی وصیت نافذ کرتے ہوئے ان کی جانب سے حج بدل ان کے مال سے کرانا ضروری ہے؛ تاہم اگر سفر حج کی رقم ان کے ایک تہائی ترکہ سے زائد بیٹھتی ہو، تو ورثہ کی اجازت سے ہی اس مد میں زائد رقم میت کے مال سے لگانا درست ہوگا۔ عن عبد اللّٰہ بن عمر أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ سئل عن الوصیۃ فقال عمر: الثلث وسط من المال لا بخس ولا شطط۔ (السنن الکبري ۳۶۹ رقم: ۱۲۸۳۹) وتجوز بالثلث للأجنبي…، لا الزیادۃ علیہ إلا أن تجیز ورثتہ بعد موتہ، وہم کبار۔ (درمختار / کتاب الوصایا ۶؍۶۵۰ کراچی، ۱۰؍۳۳۹ زکریا) ففي مناسک السروجي: لو مات رجل بعد وجوب الحج ولم یوص بہ فحج رجل عنہ …، قال أبوحنیفۃ: یجزیہ إن شاء اللّٰہ، وبعد الوصیۃ یجزیہ من غیر المشیئۃ۔ (شامي، کتاب الحج / باب الحح عن الغیر ۲؍۶۰۰ کراچی، ۴؍۱۶ زکریا، کذا في الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۵۸ کوئٹہ) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن امرأۃ من جہینۃ جاء ت إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالت: إن أمي نذرت أن تحج، فلم تحج حتی ماتت، أفأحج عنہا، قال: حجي عنہا، أرأیت لو کان علی أمّک دین أکنت قاضیۃ؟ اقضو اللّٰہ، فاللّٰہ أحقّ بالوفاء۔ (صحیح البخاري، جزاء الصید / باب الحج والنذر عن المیت والرجل یحج عن المرأۃ ۱؍۲۴۹ رقم: ۱۸۱۵ ف: ۱۸۵۲) ومن مات وعلیہ فرض الحج ولم یوص بہ، لم یلزم الوارث أن یحج عنہ، وإن أحب أن یحج عنہ حجَّ، وأرجو أن یجزیہ إن شاء اللّٰہ تعالیٰ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ، کتاب المناسک / باب الوصیۃ بالحج ۳؍۶۶۷ رقم: ۵۳۱۴ زکریا، بدائع الصنائع / وأما بیان