خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
(۵) خدا نخواستہ بعد حج وعمرہ ان کا انتقال ہوگیا، تو اس کے ورثہ کو اس کی میراث میں سے ادا کرنا ہوگا، وارث کی تعیین شروع ہی میں کردی جائے گی، اور وہ وارث بھی اقرار وقبول کرنے کے ساتھ ساتھ دستخط بھی کرنا ہوگا۔ (۶) حج وعمرہ سے پہلے اگر خدانخواستہ یہ اﷲ کو پیارا ہوگیا تو اس کے وارث کو حج وعمرہ کرنا ہوگا۔ (۷) سال بھر میں جمع شدہ رقم بینک میں رہے گی، سود کی رقم کے متعلق دس سال کی مدت پوری ہونے کے بعد یعنی تمام شرکاء کے حج وعمرہ سے فارغ ہونے کے بعد سوچا جائے گا۔ (۸) ایک ہزار سے زائد بھی جمع کرسکتے ہیں، مگر کم ازکم ایک ہزار ہی ہوگی۔ (۹) ہر سال ماہ ربیع الاول میں قرعہ ڈالا جائے گا، خواہش مند احباب کا قرعہ ہی سے فیصلہ ہوگا، جو کسی وجہ سے اگلے سالوں یا میعاد پوری ہونے پر حج وعمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں، ان کا نام قرعہ میں نہیں ڈالا جائے گا، اگر مناسب وجائز ہو تو بندہ بھی اس اسکیم میں شامل ہونا چاہتا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال نامہ میں اسکیم کی شرط نمبر۵ اور شرط نمبر ۶ میں دیگر وارثین کی حق تلفی کا خطرہ یقینی طور پر ہوگا، اور میت کی زندگی میں قول وقرار کا کوئی اعتبار نہیں؛ اس لئے کہ وارث کے حق میں وصیت شرعاً معتبر نہیں ہوتی، نیز اس معاملہ میں در اصل دیگر شرکاء کی طرف سے قرض کی تحصیل قرعہ پر موقوف ہے، اس اعتبار سے اس میں قمار کا شائبہ بھی پایا جاتا ہے؛ لہٰذا یہ اسکیم شرعاً مشتبہ اور قابل اشکال ہے، اس سے احتراز لازم ہے۔ عن شرجیل بن مسلم سمعت أبا أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول:إن اللّٰہ قد أعطی کل ذي حق حقہ، فلا وصیۃ لوارث، الحدیث۔ (أخرجہ أبوداؤد ۱؍۳۹۶ رقم: ۲۸۷۰) وسمی القمار قماراً؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ وہو حرام بالنص۔ (شامي ۹؍۵۷۷