فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
الروایات في ألفاظ الدعاء، کما في قرۃ العیون) [سیرۃ ابن هشام۲؍۶۰ تا ۶۲] ترجمہ:اے اللہ!تجھ ہی سے شکایت کرتاہوں مَیںاپنی کمزوری اوربے کَسی کی، اور لوگوں میں ذلت ورسوائی کی،اے ارحمَ الراحمین! تُوہی ضُعفاء کارب ہے، اور تُو ہی میرا پروردگار ہے، تُو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے:کسی اجنبی بےگانے کے جومجھے دیکھ کرتُرش رُو ہوتاہے اورمنھ چڑھاتا ہے، یا کہ کسی دشمن کے جس کو تُونے مجھ پرقابو دے دیا؟اے اللہ! اگر تُومجھ سے ناراض نہیں ہے تومجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے، تیری حفاظت مجھے کافی ہے، مَیں تیرے چہرے کے اُس نورکے طُفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہوگئیں، اورجس سے دنیا اور آخرت کے سارے کام درست ہوجاتے ہیں، اِس بات سے پناہ مانگتاہوں کہ مجھ پر تیرا غصہ ہو یا تُومجھ سے ناراض ہو، تیری ناراضگی کا اُس وقت تک دورکرناضروری ہے جب تک تُو راضی نہ ہو، نہ تیرے سِواکوئی طاقت ہے نہ قُوَّت۔ مالکُ المُلک کی شانِ قَہَّاری کو اِس پرجوش آناہی تھا،کہ حضرت جبرئیل ں نے آکر سلام کیا، اورعرض کیاکہ: اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی وہ گفتگوجوآپ سے ہوئی سُنی، اور اُن کے جوابات سنے، اورایک فرشتے کوجس کے مُتعلِّق پہاڑوں کی خدمت ہے آپ کے پاس بھیجا ہے، کہ آپ جوچاہے اُس کوحکم دیں، اِس کے بعد اُس فرشتے نے سلام کیا اور عرض کیاکہ: جو ارشاد ہو مَیں اُس کی تعمیل کروں، اگرارشاد ہوتو دونوں جانب کے پہاڑوں بے کَسی: لاچاری۔ ضُعفاء: کمزور۔ بےگانہ: پَرایا۔ تُرش رُو: ناخوش۔ مالکُ المُلک: شہنشاہ، خداتعالیٰ۔ شانِ قَہَّاری: اللہ کے غصے کی شان۔ تعمیل کرنا: حکم پوراکرنا۔ کو مِلادوں جس سے یہ سب درمیان میں کُچل جائے، یااَور جو سزا آپ تجویز فرمائیں، حضورﷺ کی رحیم وکریم ذات نے جواب دیا کہ: ’’مَیں اللہ سے اِس کی امید رکھتاہوں، کہ اگریہ مسلمان نہیں ہوئے تو اِن کی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا ہوںجواللہ کی پَرستِش کریں اوراُس کی عبادت کریں‘‘۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، حدیث ۳۲۳۱، ۱؍۴۵۸) فائدہ:یہ ہیں اخلاق اُس کریم ذات کے جس کے ہم لوگ نام لیوا ہیں، کہ ہم ذراسی تکلیف سے، کسی کی معمولی سی گالی دے دینے سے ایسے بھڑک جاتے ہیںکہ پھر عمر بھر اُس کابدلہ نہیں اُترتا، ظلم پر ظلم اُس پرکرتے رہتے ہیں،اوردعویٰ کرتے ہیں اپنے محمدی ہونے کا، نبی کے پَیرَو بننے کا، نبیٔ کریم ﷺاِتنی سخت تکلیف اور مَشقَّت اُٹھانے کے باوجود نہ بددعا فرماتے ہیں،نہ کوئی بدلہ لیتے ہیں۔ (۲)قصہ حضرت اَنس بن نَضْر کی شہادت کا حضرت انَس بن نَضْرص ایک صحابی تھے جو’’بدر‘‘ کی لڑائی میں شریک نہیں ہوسکے تھے، اُن کو اِس چیزکاصدمہ تھا،اِس پراپنے نفس کومَلامت کرتے تھے کہ اسلام کی پہلی عظیم الشان لڑائی اور تُو اُس میںشریک نہ ہوسکا، اِس کی