فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مُعاذص کو اہلِ یمن کی تبلیغ وتعلیم کے لیے یَمن کا اَمیر بناکر بھیجا تھا، اُس وقت رُخصت کے وقت حضور ﷺ نے کچھ وَصِیَّتیں بھی فرمائی تھیں، اور اِنھوں نے بھی کچھ سوالات کیے تھے۔ شریعت کے احکام بہت سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ: ہر حکم کی بَجا آوری تو ضروری ہے ہی؛ لیکن ہرچیز میں کمال پیدا کرنا اور اُس کو مُستَقل مَشغَلہ بنانا دشوارہے؛ اِس لیے اُن میں سے ایک چیز جو سب سے اَہم ہو مجھے ایسی بتادیجیے کہ اُس کومضبوط پکڑلوں، اور ہر وقت، ہرجگہ، چلتے، پھرتے، اُٹھتے، بیٹھتے کرتا رہوں۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: چار چیزیں ایسی ہیں کہ جس شخص کو یہ مل جائیں اُس کو دِین ودُنیا کی بھلائی مل جائے: ایک وہ زبان جو ذکر میں مشغول رہنے والی ہو، دوسرے وہ دل جو شکر میں مشغول رہتا ہو،تیسرے وہ بدن جو مَشقَّت برداشت کرنے والا ہو، چوتھے وہ بیوی جو اپنے نفس میں اور خاوند کے مال میں خِیانت نہ کرے۔ نفس میں خِیانت یہ ہے کہ، کسی قِسم کی گندگی میں مُبتَلا ہوجائے۔ (درمنثور۱؍۲۷۵) رَطبُ اللِّسان کا مطلب اکثر عُلَما نے کثرت کا لکھا ہے، اور یہ عام مُحاوَرہ ہے، ہمارے عُرف میں بھی جو شخص کسی کی تعریف یا تذکرہ کثرت سے کرتا ہے تو یہ بولا جاتا ہے کہ: ’’فلاں کی تعریف میں رَطبُ اللِّسان ہے‘‘؛ مگر بندۂ ناچیز کے خَیال میں ایک دوسرا مطلب بھی ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ: جس سے عِشق ومحبت ہوتی ہے اُس کے نام لینے سے منھ میں ایک لَذَّت اور مزہ محسوس ہوا کرتا ہے، جن کو بابِ عشق سے کچھ سابِقہ پڑچکا ہے وہ اِس سے وَاقف ہیں، اِس بِنا پر مطلب یہ ہے کہ، اِس لَذَّت سے اللہ پاک کا نام لیا جائے کہ مزہ آجائے۔ مَیں نے اپنے بعض بزرگوں کو بہ کثرت دیکھا ہے کہ ذِکر بِالجہر کرتے ہوئے ایسی تَراوَٹ آجاتی ہے کہ پاس بیٹھنے والا بھی اُس کو محسوس کرتا ہے، اور ایسا منھ میں پانی بھر جاتا ہے کہ ہر شخص اُس کو محسوس کرتا ہے؛ مگر یہ جب حاصل ہوتا ہے کہ جب دِل میںچَسک ہو، اور زبان کثرتِ ذکر سے مانوس ہوچکی ہو۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: اللہ سے محبت کی علامت اُس کے ذکر سے محبت ہے، اور اللہ سے بُغض کی علامت اُس کے ذکر سے بُغض ہے۔(شعب الایمان، ۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۴۰۶) حضرت ابو درداء ص فرماتے ہیں کہ: جن لوگوں کی زبان اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہتی ہے وہ جنت میں ہنستے ہوئے داخل ہوںگے۔(ابن مبارک،ابواب الزہد، ۔۔۔۔۔۔ حدیث:۱۱۲۶) (۳)عَن أَبِي الدَّردَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: أَلَا أُنَبِّئُکُم بِخَیرِ أَعمَالِکُمْ، وَأَزکَاهَا عِندَ مَلِیکِکُمْ، وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِکُم، وَخَیرٍ لَکُم مِن إِنفَاقِ الذَّهَبِ وَالوَرَقِ، وَخَیرٍلَّکُمْ مِن أَنْ تَلقُوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضرِبُوْا أَعنَاقَهُمْ وَیَضرِبُوا أَعنَاقَکُمْ؟ قَالُوْا: بَلیٰ! قَالَ: ذِکرُ اللہِ.