فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمرص کی خدمت میں ایک مرتبہ ’’بحرین‘‘ سے مُشک آیا، ارشاد فرمایا کہ: کوئی اِس کو تول کرمسلمانوں میں تقسیم کردیتا، آپص کی اہلیہ:حضرت عاتکہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَانے عرض کیا: مَیں تول دُوںگی، آپص نے سن کر سُکوت فرمایا، تھوڑی دیر میں پھریہی ارشاد فرمایاکہ: کوئی اِس کو تول دیتا؛ تاکہ مَیں تقسیم کردیتا، آپص کی اَہلیہ نے پھر یہی عرض کیا: آپ صنے سکوت فرمایا، تیسری دفعہ میں ارشاد فرمایا کہ: ’’مجھے یہ پسند نہیں کہ تُو اِس کو اپنے ہاتھ سے ترازو کے پلڑے میں رکھے، اور پھراُن ہاتھوں کو اپنے بدن پرپھیرے، اور اِتنی مقدار کی زیادتی مجھے حاصل ہو‘‘۔ (اِحیاء العلوم، کتاب الحلال والحرام، ۲؍۱۲۱) فائدہ: یہ کمالِ احتیاط تھی اوراپنے آپ کومحلِ تُہمت سے بچانا؛ورنہ جوبھی تولے گا اُس کے ہاتھ کو تو لگے ہی گا؛ اِس لیے اِس کے جواز میں کوئی تردُّد نہ تھا؛ لیکن پھربھی حضرت عمرص نے اپنی بیوی کے لیے اِس کوگَوارا نہ فرمایا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جن کو’’عمرِ ثانی‘‘ بھی کہاجاتا ہے، اُن کے زمانے میں ایک مرتبہ مُشک تولاجارہا تھا تواُنھوں نے اپنی ناک بند فرمالی، اور ارشاد فرمایا کہ: مُشک کا نفع تو خوشبو ہی سونگھنا ہے۔ فائدہ:یہ ہے احتیاط اُن صحابہ ث ا ورتابعینؒ کی، اور ہمارے بڑوں کی، پیشواؤں کی۔ (۱۰)حضرت عمربن عبدالعزیز ؒ کاحَجَّاج کے حاکم کوحاکم نہ رکھنا مَعزول: الگ۔ دَرکِنار: ایک طرف۔ بَڑائی: تکبُّر۔ مَسکَنت: عاجزی۔ فَرحَت: خوشی۔ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے ایک شخص کوکسی جگہ کاحاکم بنایا، کسی شخص نے عرض کیا کہ: یہ صاحب حَجَّاج بن یوسف کے زمانے میں اُس کی طرف سے بھی حاکم رہ چکے ہیں، عمر بن عبدالعزیزؒ نے اُن حاکم کومَعزول کردیا، اُنھوںنے عرض کیا کہ: مَیں نے تو حَجاج بن یوسف کے یہاں تھوڑے ہی زمانے کام کیا، عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا کہ: بُرا ہونے کے لیے اِتناہی کافی ہے کہ تُو اُس کے ساتھ ایک دن یااِس سے بھی کم رہا۔(اِحیاء العلوم، کتاب الحلال والحرام، ۲؍۱۷۸) فائدہ: مطلب یہ ہے کہ پاس رہنے کا اثر ضرور پڑتا ہے، جوشخص مُتَّقیوں کے پاس رہتا ہے اُس کے اوپر غیرمعمولی اور غیرمحسوس طریقے سے تقویٰ کااثر پڑتاہے، اور جو فاسقوں کے پاس رہتا ہے اُس کے اوپر فِسق کا اثر ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے بُری صحبت سے روکاجاتاہے، آدمی تودَرکِنار، جانوروں تک کے اثرات پاس رہنے سے آتے ہیں۔ حضورﷺ کاارشادہے کہ: ’’فخر اور بَڑائی اُونٹ اور گھوڑے والوں میں ہوتی ہے اورمَسکَنت بکری والوں میں‘‘۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قدوم الاشعریین واہل الیمن، ۲؍۶۳۰) حضورﷺ کاارشاد ہے کہ: ’’صالح آدمی کے پاس بیٹھنے والوں کی مثال