فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
زیادہ پڑھے ہوئے ہونے کواِس میں دَخَل نہیں تھا، اِس کے باوجود حضورﷺنے قرآنِ پاک کی زیادتی کی وجہ سے جھنڈے کے اُٹھانے میں اِن کو مُقدَّم فرمایا، اکثرچیزوں میں حضورِ اقدس ﷺ اِس کالِحاظ فرماتے تھے، حتیٰ کہ اگر کئی آدمیوں کو کسی ضرورت سے ایک قبر میں دفن فرمانے کی نوبت آتی، تو جس کاقرآن شریف زیادہ پڑھا ہوا ہوتا تھا اُس کو مُقدَّم فرماتے، جیسا کہ غزوۂ اُحُد میں کیا۔ (۸)حضرت ابوسعید خُدری ص کے بچپن میں اُن کے والد کی شہادت قُویٰ: اَعضا۔ غِنا: بے نیازی۔ مُصاحَبت: ساتھ رہنے۔ حضرت ابوسعید خُدری صفرماتے ہیں کہ: مَیں اُحُد کی لڑائی میں پیش کیاگیا، تیرہ سال کی میری عمر تھی، حضورﷺنے قبول نہیں فرمایا، میرے والد نے سفارش بھی کی کہ اِس کے قُویٰ اچھے ہیں، ہڈِّیاں بھی موٹی ہیں، حضورﷺ نگاہ میری طرف اوپر کو اُٹھاتے تھے پھر نیچے کرلیتے تھے، بالآخر کم عمر ہونے کی وجہ سے اجازت نہیں دی، میرے والد اِس لڑائی میںشریک ہوئے اور شہید ہوگئے، کوئی مال وغیرہ کچھ نہ تھا، مَیں حضورِاقدس ﷺ کی خدمت میں سوال کرنے کی غرض سے حاضر ہوا، حضورﷺنے مجھے دیکھ کرارشادفرمایا کہ: ’’جوصبرمانگتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کو صبر عطا فرماتے ہیں،اور جو پاکبازی اللہ سے مانگتا ہے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کوپاکباز بنادیتے ہیں، اور جو غِنا چاہتا ہے اُس کو غِنا عطافرماتے ہیں‘‘، مَیں نے یہ مضمون حضورﷺسے سنا پھر کچھ نہ مانگا،چُپکے ہی سے واپس آگیا۔ اِس کے بعد حق تَعَالیٰ شَانُہٗنے اِن کو وہ رُتبہ عطافرمایاکہ نوعمر صحابہ میں اِس بڑے درجے کاعالِم دوسرا مشکل سے ملے گا۔ (اِصابہ، ۳؍ ۶۶۔ اِستیعاب) فائدہ:بچپن کی عمر اور باپ کے صدمے کے عِلاوہ ضرورت کاوقت؛ لیکن نبیٔ اکرم ا کی ایک عام نصیحت کوسن کر چُپ چاپ چلے آنا، اور اپنی پریشانی کااِظہار تک نہ کرنا، کیاآج کل کوئی بڑی عمر والا بھی کرسکتا ہے!۔ سچ یہ ہے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اپنے رسول کی مُصاحَبت کے لیے ایسے ہی لوگ چُنے تھے جو اِس کے اَہل تھے؛ اِسی لیے حضورﷺکا ارشاد ہے -جو ’’خاتمہ‘‘ میں آتا ہے- کہ: اللہ نے سارے آدمیوں میں سے میرے صحابہ کوچُناہے۔ (۹)حضرت سَلمہ بن اَکوَع کا تنِ تنہا ایک جماعت سے مُقابلہ ضربُ المَثَل: کہاوت کی طرح مشہور۔ ’’غابہ‘‘ مدینۂ طیبہ سے چارپانچ مِیل پر ایک آبادی تھی، وہاںحضورﷺ کے کچھ اونٹ چَرا کرتے تھے، کافروں کے ایک مجمع کے ساتھ عبدالرحمن