فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
جس کو چاہیں ہدایت نہیں فرماسکتے؛ بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت کرتا ہے۔ (مسلم،کتاب الایمان، باب الدلیل علیٰ صحۃ الاسلام من حضرہ الموت،۱؍۴۰حدیث:۲۴) اِس قِصَّے سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ: جو لوگ فِسق وفُجور میں مُبتَلارہتے ہیں، خدا اور اُس کے رسول ﷺ سے بے گانہ رہتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ، کسی عزیز قریب بزرگ کی دعا سے بیڑا پار ہوجائے گا، غلَطی میں مُبتلا ہیں، کام چلانے والا صرف اللہ ہی ہے، اُسی کی طرف رُجوع کرنا چاہیے، اُسی سے سچا تعلُّق قائم کرنا ضروری ہے؛ البتہ اللہ والوں کی صُحبت، اُن کی دعا، اُن کی توجُّہ مُعِین ومددگار بن سکتی ہے۔ (۲۸) عَن عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَمَّا أَذنَبَ اٰدَمُ الذَّنبَ الَّذِي أَذْنَبَہُ رَفَعَ رَأْسَہٗ إِلَی السَّمَاءِ، فَقَالَ: أَسأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ إِلَّا غَفَرتَ لِيْ، فَأَوحَی اللہُ إِلَیہِ: مَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: تَبَارَكَ اسْمُكَ، لَمَّاخَلَقتَنِيْ رفَعَتُ رَأْسِي إِلیٰ عَرشِكَ، فَإذَا فِیہِ مَکتُوبٌ: ’’لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ‘‘، فَعَلِمتُ أَنَّہٗ لَیسَ أَحَدٌ أَعظَمُ عِندَكَ قَدراً عَمَّنْ جَعَلتَ اِسمَہٗ مَعَ اِسمِكَ، فَأَوحَی اللہُ إِلَیہِ: یَا اٰدَمُ! إِنَّہٗ اٰخِرُ النَّبِیِّیْنَ مِنْ ذُرِّیَّتِكَ، وَلَوْلَا هُوَ مَاخَلَقتُكَ. (أخرجہ الطبراني في الصغیر، والحاکم، وأبونعیم، والبیهقي؛ کلاهما في الدلائل، وابن عساکر في الدر، وفي مجمع الزوائد: رواہ الطبراني فيالأوسط والصغیر، وفیہ من لم أعرفهم. قلت: ویؤید الأخر الحدیث المشهور: ’’لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الأَفْلَاكَ‘‘، قال القاري في الموضوعات الکبیر: موضوع؛ لکن معناہ صحیح، وفي التشرف: معناہ ثابت. ویؤید الأول ما ورد في غیر روایۃ، من: أَنَّہٗ مَکْتُوْبٌ عَلَی العَرْشِ وَأَوْرَاقِ الجَنَّۃِ:’’لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ‘‘، کما بسط طرقہ السیوطي في مناقب اللاٰلي فيغیر موضع، وبسط لہ شواهد أیضا في تفسیرہ في سورۃ ألم نشرح) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: حضرت آدم (عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ) سے جب وہ گناہ صادِر ہوگیا (جس کی وجہ سے جنت سے دنیا میں بھیج دیے گئے، تو ہر وقت روتے تھے اور دعا واِستِغفار کرتے رہتے تھے، ایک مرتبہ)آسمان کی طرف منھ کیا اور عرض کیا: یا اللہ! محمد (ﷺ) کے وسیلے سے تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں، وحی نازل ہوئی کہ: محمد کون ہیں(جن کے واسطے سے تم نے اِستِغفار کی؟)عرض کیا کہ: جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو مَیں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تھا: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ، تومَیں سمجھ گیا تھا کہ محمد (ﷺ) سے اونچی ہَستی کوئی نہیں ہے جن کا نام تم نے اپنے نام کے ساتھ رکھا، وحی نازل ہوئی کہ: وہ خاتَم النَّبیِّین ہیں، تمھاری اولاد میں سے ہیں؛ لیکن وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے۔ تَعارُض: ایک دوسرے کے خلاف۔ خَفگی: ناراضگی۔ عِتاب: غُصَّہ۔ لب: ہونٹ۔سخن: بات۔ اضطِراب: بے چینی۔ مُشابِہ:جیسا۔سَبز: ہرا۔ سُرخی: لال رنگ۔ فائدہ: حضرت آدم عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ اُس وقت کیا کیا دعائیں کیں اور کس کس طرح سے گِڑگِڑائے؟ اِس بارے میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں، اور اُن میں کوئی تَعارُض بھی نہیں، جس پر مالک کی ناراضگی، آقاکی خَفگی ہوئی ہو وہی جانتا ہے، اِن بے حقیقت آقاؤں کی ناراضگی کی وجہ سے نوکروں اور خادموں پر کیا کچھ گزر جاتا ہے؟ اور وہاں تو مالکُ المُلک، رَزَّاقِ عالَم، اور مختصر یہ کہ خدا کا عِتاب تھا، اور گزر کس پر رہی تھی؟ اُس شخص پر جس کو فرشتوں سے سجدہ کرایا، اپنا مُقرَّب بنایا، جو شخص جتنا مُقرب ہوتا ہے اُتنا ہی عِتاب کا اُس پر اَثر ہوتا ہے، بہ شرطے کہ کمینہ نہ ہو، اور وہ تو نبی تھے۔