فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تعالیٰ نے بندوں کے لیے مُقرَّر فرمایا وہ نماز ہے، اھ۔ (مسند احمد، حدیث:۲۱۵۴۶) اور اَحادیث میں کثرت سے یہ مضمون صاف اور صحیح حدیثوں میں نقل کیاگیا کہ: تمھارے اعمال میں سب سے بہتر عمل نماز ہے۔ چناں چہ ’’جامعِ صغیر‘‘ میں حضرت ثَوبان، ابنِ عَمرو، سلمہ، اَبو اُمامہ، عُبادہ ث؛ پانچ صحابہ سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے، اورحضرت عبداللہ بن مسعودص وانس ص سے اپنے وقت پر نماز کاپڑھنا افضل ترین عمل نقل کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عمرص اوراُمِّ فَروَہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا سے اَوَّل وقت نماز پڑھنا نقل کیا گیاہے، مقصد سب کا قریب ہی قریب ہے۔ (۲)عَنْ أَبِيْ ذَرٍّص أَنَّ النَّبِيَّﷺ خَرَجَ فِيْ الشِّتَاءِ وَالْوَرَقُ یَتَهَافَتُ، فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِّنْ شَجَرَۃٍ، قَالَ: فَجَعَلَ ذٰلِكَ الْوَرَقُ یَتَهَافَتُ، فَقَالَ: یَاأَبَاذَرٍّ! قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَارَسُوْلَ اللہِ! قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَیُصَلِّيَ الصَّلَاۃَ یُرِیْدُ بِهَا وَجْہَ اللہِ، فَتَهَافَتَ عَنْہُ ذُنُوْبُہٗ کَمَا تَهَافَتُ هٰذَا الْوَرَقُ عَنْ هٰذِہِ الشَّجَرَۃِ.(رواہ أحمد، محتج بهم في الصحیح، إلا علي بن زید، کذا في الترغیب). ترجَمہ: حضرت ابوذرص فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ نبیٔ کریم ﷺسردی کے موسم میں باہر تشریف لائے، اور پَتے درختوں پر سے گِر رہے تھے، آپ ﷺنے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی، اُس کے پتے اَوربھی گِرنے لگے، آپ ﷺنے فرمایا:اے ابوذر! مسلمان بندہ جب اخلاص سے اللہ کے لیے نمازپڑھتا ہے تو اُس کے گناہ ایسے ہی گِرتے ہیںجیسے یہ پَتے درخت سے گِررہے ہیں۔ فائدہ: سردی کے موسم میں درختوں کے پَتے ایسی کثرت سے گِرتے ہیں کہ بعضے درختوں پرایک بھی پتہ نہیں رہتا، نبیٔ اکرم ﷺ کاپاک ارشاد ہے کہ: ’’اخلاص سے نمازپڑھنے کا اثر بھی یہی ہے کہ اُس کے سارے گناہ مُعاف ہوجاتے ہیں، ایک بھی نہیں رہتا‘‘؛ مگرایک بات قابلِ لحاظ ہے: عُلما کی تحقیق آیاتِ قرآنیہ اوراحادیثِ نبوِیہ کی وجہ سے یہ ہے کہ: نماز وغیرہ عبادات سے صرف گناہِ صغیرہ مُعاف ہوتے ہیں، کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے مُعاف نہیںہوتا؛ اِس لیے نماز کے ساتھ توبہ اور اِستغفار کااِہتِمام بھی کرناچاہیے، اِس سے غافل نہ ہوناچاہیے؛ البتہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے فضل سے کسی کے کبیرہ گناہ بھی مُعاف فرمادیں تو دوسری بات ہے۔ (۳) عَنْ أَبِيْ عُثْمَانَ قَالَ: کُنْتُ مَعَ سَلْمَانَ تَحْتَ شَجَرَۃٍ، فَأَخَذَ غُصْناً مِّنْهَا یَابِساً فَهَزَّہٗ، حَتّیٰ تَحَاتَّ وَرَقُہٗ ثُمَّ قَالَ: یَا أَبَاعُثْمَانَ! أَلَاتَسْأَ لُنِيْ لِمَ أَفْعَلُ هٰذا؟ قُلْتُ: وَلِمَ تَفْعَلُہٗ؟ قَالَ: هٰکَذَا فَعَلَ بِيْ رَسُوْلُ اللہِﷺ، وَأَنَا مَعَہٗ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ، وَأَخَذَ مِنْهَاغُصْناً یَابِساً، فَهَزَّہٗ حَتیٰ تَحَاتَّ وَرَقُہٗ، فَقَالَ: یَاسَلْمَانُ! أَلَاتَسَأَ لُنِيْ لِمَ أَفْعَلُ هٰذا؟ قُلْتُ: وَلِمَ تَفْعَلُہٗ؟ قَالَ: ’’إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا تَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوْءَ، ثُمَّ صَلَّی الصَّلَوَاتَ الْخَمْسَ، تَحَاتَّتْ خَطَایَاہُ کَمَا تَحَاتَّ هٰذَا الْوَرَقُ، وَقَالَ: ﴿أَقِمِ الصَّلوٰۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفاً مِّنَ اللَّیْلِ، إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْ ہِبْنَ السَّیِّئَاتِ، ذٰلِکَ ذِکْریٰ لِلذَّاکِرِیْنَ﴾‘‘.(رواہ أحمد والنسائي والطبراني)