فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
نے اُن سے درخواست کی کہ: جہاز سے اُترنے کے وقت حضرت جَدّہ تشریف فرما ہوں؛ تاکہ جناب کی برکت سے ہمارے مال میں نفع ہو، اور مقصود یہ تھا کہ تجارت کے مَنافِع سے حضرت کے بعض خُدَّام کو کچھ نفع حاصل ہو، اوَّل تو حضرت نے عذر فرمایا؛ مگر جب اُنھوں نے اِصرار کیا تو حضرت نے دریافت فرمایا کہ: تمھیں زائد سے زائد جو نفع مالِ تجارت میں ہوتا ہے وہ کیا مقدار ہے؟ اُنھوں نے عرض کیا کہ: مختلف ہوتا ہے، زائد سے زائد ایک کے دو ہوجاتے ہیں، حضرت نے فرمایا کہ: اِس قلیل نفع کے لیے اِس قدر مَشقَّت اُٹھاتے ہو، اِتنی سی بات کے لیے ہم حرمِ محترم کی نماز کیسے چھوڑ دیںجہاں ایک کے لاکھ ملتے ہوں؟۔ درحقیقت مسلمانوں کے غور کرنے کی جگہ ہے، کہ وہ ذرا سی دُنیوی متاع کے خاطر کس قدر دِینی مَنافِع کو قربان کردیتے ہیں۔ (۴)عَن عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: اَلْمَاهِرُ بِالْقُراٰنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الکِرَامِ البَرَرَۃِ، وَالَّذِي یَقرَأُ القُرْاٰنَ وَیَتَتَعْتَعُ فِیہِ وَهُوَ عَلَیہِ شَاقٌّ لَہٗ أَجْرَانِ. (رواہ البخاري، ومسلم، وأبوداود، والترمذي، والنسائي، وابن ماجہ) ترجَمہ: حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَانے حضورِ اقدس ﷺکا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ: قرآن کا ماہر اُن ملائکہ کے ساتھ ہے جو مِیرمُنشی ہیں اور نیک کار ہیں، اور جو شخص قرآن شریف کو اَٹکتا ہوا پڑھتا ہے اور اُس میں دِقَّت اُٹھاتا ہے اُس کو دوہرا اجر ملتاہے۔ مِیرمُنشی: اعلیٰ مینجر۔ دِقَّت: مَشقَّت۔ دوہرا: دو گُنا۔ فائدہ:قرآن شریف کا ماہر وہ کہلاتا ہے جس کو یاد بھی خوب ہو اور پڑھتا بھی خوب ہو، اور اگر معانی ومراد پر بھی قادر ہوتو پھر کیا کہنا؟۔ ملائکہ کے ساتھ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ، وہ بھی قرآن شریف کو لوحِ محفوظ سے نقل کرنے والے ہیں، اور یہ بھی اُس کا نقل کرنے والااورپہنچانے والا ہے، تو گویا دونوں ایک ہی مَسلک پر ہیں، یا یہ کہ حشر میں اُن کے ساتھ اجتماع ہوگا۔ اَٹکنے والے کو دوہرا اجر ایک اُس کی قراء ت کا، دوسرا اُس کی مَشقَّت کا جو اِس بار بار کے اَٹکنے کی وجہ سے برداشت کرتا ہے؛ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اُس ماہر سے بڑھ جاوے، ماہر کے لیے جو فضیلت ارشاد فرمائی گئی ہے وہ اِس سے بہت بڑھ کر ہے، کہ مخصوص ملائکہ کے ساتھ اُس کا اجتماع فرمایا ہے؛ بلکہ مقصود یہ ہے کہ اُس کے اٹکنے کی وجہ سے اُس مَشقَّت کا اجر مستقل ملے گا؛ لہٰذا اِس عذر کی وجہ سے کسی کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ مُلَّاعلی قاریؒ نے ’’طَبرانی‘‘ اور ’’بَیہقی‘‘ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ: جو شخص قرآن شریف پڑھتا ہے اور وہ یاد نہیں ہوتا تو اُس کے لیے دوہرا اجر ہے، اور جو اُس کو یاد کرنے کی تمنا کرتا رہے؛ لیکن یاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا؛ مگر وہ پڑھنا بھی نہیں چھوڑتا، تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کا حُفَّاظ ہی کے ساتھ حشر فرمائیںگے۔ (۵) عَنْ ابنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَاحَسَدَ إلَّا عَلَی اثنَینِ: رَجُلٌ اٰتَاہُ اللہُ الْقُرْاٰنَ، فَهُوَ یَقُومُ بِہٖ اٰنَاءَ