فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
(۱۰) عَنْ أبِي هُرَیرَۃَ أنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: مَنْ أفْطَرَ یَوماً مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَیرِ رُخْصَۃٍ وَلَامَرَضٍ لَمْ یَقْضِہٖ صَوْمُ الدَّهْرِکُلَّہٗ وَإنْ صَامَہٗ. (رواہ أحمد والترمذي وأبوداود وابن ماجہ والدارمي والبخاري في ترجمۃ باب؛ کذا في المشکاۃ. قلت: وبسط الکلام علیٰ طرقہ العیني في شرح البخاري) ترجَمہ: نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص قَصداًبِلا کسی شرعی عُذر کے ایک دن بھی رمَضان کے روزے کو افطار کردے، غیرِ رمَضان کا روزہ چاہے تمام عمر کے روزے رکھے اُس کابدل نہیں ہوسکتا۔ ساقِط:ادا۔ فُسَّاق: فاسِقوں۔ مَردُم شماری: آدمیوں کی گنتی۔ قَہر: غُصَّہ۔ چارہ: چھُٹکارا۔ کار آمد: کام آنے والی۔ کِفایت: اِکتِفا۔ تمَسخُر: ہنسی۔ مُنکِر:انکار کرنے والا۔ فاسِق: گنہ گار۔ عَلی الاِعلان: کھُلَّم کھُلاَّ۔ سُبک دَوش: آزاد۔ مُطِیع: اِطاعت کرنے والا۔ تِلْكَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ: وہ مکمل دس ہیں۔ فائدہ: بعض عُلَما کا مذہب -جن میں حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہوغیرہ حضرات بھی ہیں- اِس حدیث کی بِنا پر یہ ہے کہ: جس نے رمَضانُ المبارک کے روزے کو بِلاوجہ کھودیا اُس کی قضا ہو ہی نہیں سکتی چاہے عمر بھر روزے رکھتا رہے؛ مگر جَمہُور فُقَہاکے نزدیک اگر رمَضان کا روزہ رکھا ہی نہیں تو ایک روزے کے بدلے ایک روزے سے قَضا ہوجائے گی، اور اگر روزہ رکھ کر توڑ دیا تو قضا کے ایک روزے کے عِلاوہ دو مہینے کے روزے کَفَّارے کے ادا کرنے سے فرض ذِمَّے سے ساقِط ہوجاتا ہے؛ البتہ وہ برکت اور فضیلت جو رمَضانُ المبارک کی ہے، ہاتھ نہیں آسکتی، اور اِس حدیث پاک کا مطلب یہی ہے، کہ وہ برکت ہاتھ نہیں آسکتی کہ جو رمَضان شریف میں روزہ رکھنے سے حاصل ہوتی۔ یہ سب کچھ اِس حالت میں ہے کہ بعد میں قَضا بھی کرے، اور اگر سِرے سے رکھے ہی نہیں جیسا کہ اِس زمانے کے بعض فُسَّاق کی حالت ہے تواُس کی گمراہی کا کیا پوچھنا!۔ روزہ اَرکانِ اسلام سے ایک رُکن ہے، نبیٔ کریم ﷺ نے اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ارشاد فرمائی ہے: سب سے اوَّل توحید ورِسالت کا اِقرار، اِس کے بعد اسلام کے چاروں مشہور رُکن: نماز، روزہ، زکوۃ، حج۔ کتنے مسلمان ہیں جو مَردُم شماری میں مسلمان شمار ہوتے ہیں؛ لیکن اِن پانچوں میں سے ایک کے بھی کرنے والے نہیں، سرکاری کاغذات میں وہ مسلمان لکھے جائیں؛ مگر اللہ کی فہرست میں وہ مسلمان شمار نہیں ہوسکتے۔ حضرت ابن عباس صکی روایت میں ہے کہ: اسلام کی بنیاد تین چیزپر ہے: کلمۂ شہادت، نماز اور روزہ؛ جو شخص اِن میں سے ایک بھی چھوڑ دے وہ کافر ہے، اُس کا خون کردینا حلال ہے۔ عُلَما نے اِن جیسی روایات کو انکار کے ساتھ مُقیَّد کیا ہو یا کوئی تاویل فرمائی ہو؛ مگر اِس سے اِنکار نہیں کہ نبیٔ کریم ﷺ کے ارشادات ایسے لوگوں کے بارے میں سخت سے سخت وَارِد ہوئے ہیں۔ فرائِض کے اَداکرنے میں کوتاہی کرنے والوں