فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہے، شریعت نے انگلیوں کوملانے کاکھولنے کا حکم بے فائدہ نہیں فرمایا ہے‘‘، یعنی ایسے معمولی آداب کی رِعایت بھی ضروری ہے۔ اِسی سلسلے میں تحریرفرماتے ہیں کہ: ’’نماز میں کھڑے ہونے کی حالت میں سجدے کی جگہ نگاہ کاجَمائے رکھنا، اور رکوع کی حالت میں پاؤں پرنگاہ رکھنا، اور سجدے میں جاکر ناک پر رکھنا،اور بیٹھنے کی حالت میں ہاتھوں پر نگاہ رکھنا نماز میں خشوع کو پیدا کرتاہے، اور اِس سے نماز میں دِل جَمعی نصیب ہوتی ہے، جب ایسے معمولی آداب بھی اِتنے اہم فائدے رکھتے ہیں توبڑے آداب اور سنتوں کی رعایت تم سمجھ لو کہ، کس قدر فائدہ بخشے گی!‘‘۔ (۶) عَنْ أُمِّ رُوْمَانَ -وَالِدَۃُ عَائِشَۃَ- قَالَتْ: رَاٰنِيْ أَبُوْبَکِرٍ الصِّدِّیْقِ أَتَمَیَّلُ فِيْ صَلَاتِيْ، فَزَجَرَنِيْ زَجْرَۃً کِدْتُّ أَنْصَرِفُ مِنْ صَلَاتِيْ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ یَقُوْلُ: إِذَا قَامَ أَحَدُکُمْ فِيْ الصَّلَاۃِ فَلْیُسْکِنْ أَطْرَافَہٗ، لَایَتَمَیَّلُ تَمَیُّلَ الْیَهُوْدَ، فَإِنَّ سُکُوْنَ الْأَطْرَافِ فِيْ الصَّلَاۃِ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاۃِ. (أخرجہ الحکیم الترمذي من طریق القاسم بن محمدعن أسماء بنت أبي بکر عن أم رومان، کذا في الدر، وعزاہ السیوطي في الجامع الصغیر إلیٰ أبي نعیم في الحلیۃ، وابن عدي في الکامل، ورقم لہ بالضعف، وذکر أیضاً بروایۃ ابن عساکر عن أبي بکر: مِنْ تَمَامِ الصَّلَاۃِ سُکُونُ الأَطرَافِ) ترجَمہ:حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا کی والدہ اُمِّ رُومان رَضِيَ اللہُ عَنْهَا فرماتی ہیں کہ: مَیں ایک مرتبہ نمازپڑھ رہی تھی، نماز میں اِدھر اُدھر جھکنے لگی، حضرت ابوبکرصدیق ص نے دیکھ لیا تو مجھے اِس زور سے ڈانٹا کہ مَیں (ڈر کی وجہ سے) نماز توڑنے کے قریب ہوگئی، پھرارشادفرمایا کہ: مَیں نے حضورﷺسے سنا ہے کہ: جب کوئی شخص نماز کوکھڑا ہو تو اپنے تمام بدن کوبالکل سکون سے رکھے، یہود کی طرح ہِلے نہیں، بدن کے تمام اَعضا کا نماز میں بالکل سکون سے رہنا نماز کے پورا ہونے کا جُزوہے۔ ذیل: تفسیر۔ ہَمہ تَن: مکمل طور پر ۔ باز: رُک۔ نوبت: موقع۔ فائدہ:نماز کے درمیان میں سُکون سے رہنے کی تاکید بہت سی حدیثوں میںآئی ہے، نبیٔ اکرم ﷺکی عادتِ شریفہ اکثر آسمان کی طرف دیکھنے کی تھی، کہ وحی کے فرشتے کاانتظار رہتاتھا، اور جب کسی چیز کاانتظارہوتا ہے تواُس طرف نگاہ بھی لگ جاتی ہے، اِسی وجہ سے کبھی نماز میں بھی نگاہ اوپر اُٹھ جاتی تھی، جب ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِیْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خَاشِعُوْنَ﴾ نازل ہوئی تو پھر نگاہ نیچے رہتی تھی۔ صحابہث کے مُتعلِّق بھی حدیث میں آیا ہے کہ: اوَّل اوَّل اِدھر اُدھر توجُّہ فرمالیا کرتے تھے؛ مگراِس آیتِ شریفہ کے نازل ہونے کے بعد سے کسی طرف توجُّہ نہیں کرتے تھے۔ (أخرجہ ابن جریر فی تفسیر ھذہ الآیۃ۔۔۔۔۔۔) حضرت عبداللہ بن عمرص اِسی آیتِ شریفہ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ: صحابۂ کرام ث جب نماز کو کھڑے ہوتے تھے توکسی طرف توجُّہ نہیں کرتے تھے، ہَمہ تَن نماز کی طرف مُتوجَّہ رہتے تھے، اپنی نگاہوں کوسجدے کی جگہ رکھتے تھے، اوریہ سمجھتے تھے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُن کی طرف مُتوجَّہ ہے۔(در منثور۔۔۔۔۔۔)