فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
پرمَنتَر پڑھا، اُنھوںنے مجھ سے وعدہ کررکھا تھا، آج میرا گزر اُدھر کو ہوا تواُن کے یہاں شادی ہو رہی تھی، اُنھوں نے یہ مجھے دیاتھا، حضرت ابوبکرصنے فرمایاکہ: ’’تُو مجھے ہلاک ہی کر دیتا‘‘، اِس کے بعدحلق میں ہاتھ ڈال کرقے کرنے کی کوشش کی؛ مگرایک لقمہ وہ بھی بھوک کی شدَّت کی حالت میں کھایاگیا، نہ نکلا، کسی نے عرض کیا کہ:پانی سے قے ہوسکتی ہے، ایک بہت بڑا پیالہ پانی کا منگوایا، اور پانی پی پی کر قے فرماتے رہے، یہاں تک کہ وہ لقمہ نکالا۔کسی نے عرض کیا کہ: اللہ آپ پررحم فرمائیں، یہ ساری مَشقَّت اِس ایک لقمے کی وجہ سے برداشت فرمائی، آپ نے ارشاد فرمایاکہ: ’’اگرمیری جان کے ساتھ بھی یہ لقمہ نکلتا تومَیں اِس کونکالتا، مَیں نے حضور ﷺسے سنا ہے کہ: ’’جو بدن مالِ حرام سے پرورش پائے، آگ اُس کے لیے بہتر ہے‘‘، مجھے یہ ڈر ہوا کہ میرے بدن کاکوئی حصہ اِس لقمے سے پرورش نہ پاجائے‘‘۔ (منتخب کنزُالعُمَّال، ۴؍ ۳۶۰۔ جمع الفوائد، کتاب البیوع، ۲؍ ۶۳۸) گَوارا: پسند۔ فائدہ:حضرت ابوبکر صدیق ص کو اِس قِسم کے واقعات متعدِّد بار پیش آئے، کہ احتیاط مزاج میں زیادہ تھی، تھوڑا سا بھی شبہ ہوجاتاتھا توقے فرماتے۔ ’’بخاری شریف‘‘ میں ایک اَور قصہ اِسی قِسم کاہے کہ: کسی غلام نے زمانۂ جاہلیت میں کوئی کَہانت یعنی: غیب کی بات نُجومِیوںکے طور پر کسی کوبتلائی تھی، وہ اتِّفاق سے صحیح ہوگئی، اُن لوگوں نے اُس غلام کوکچھ دیا، جس کواُنھوں نے اپنی مقرَّرہ رقم میں حضرت ابوبکرصدیق صکو لاکر دے دیا، حضرت نے نوش فرمایا، اور پھر جو کچھ پیٹ میں تھا سب قے کیا۔ اِن واقعات میں غلاموں کامال ضروری نہیں کہ ناجائز ہی ہو، دونوں احتمال ہیں؛ مگر حضرت ابوبکر صدیق ص کی کمالِ احتیاط نے اِس مُشتبَہ مال کوبھی گَوارا نہ کیا۔ (۴)حضرت عمر کی صدقے کے دودھ سے قے شائع: پھیلنا۔ حضرت عمرص نے ایک مرتبہ دودھ نوش فرمایا، کہ اُس کامزہ کچھ عجیب سا نیا سا معلوم ہوا، جن صاحب نے پلایاتھااُن سے دریافت فرمایا کہ:یہ دودھ کیساہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اُنھوں نے عرض کیا کہ: فلاں جنگل میں صدقے کے اونٹ چَر رہے تھے کہ مَیں وہاں گیا، تواُن لوگوں نے دودھ نکالا، جس میں سے مجھے بھی دیا، حضرت عمرص نے منھ میں ہاتھ ڈالا اور سارے کاسارا قے فرما دیا۔ (موطا ٔامام مالک،باب ماجاء فی اخذ الصدقات، کتاب الزکوٰة،ص ۱۱۶ ) فائدہ:اِن حضرات کو اِس کاہمیشہ فکر رہتاتھا کہ مُشتَبہ مال بھی بدن کاجزنہ بنے، چہ جائیکہ بالکل حرام، جیسا کہ ہمارے اِس زمانے میں شائع ہوگیا۔