فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کرتے رہو اور اِس پراللہ کا شکر کرتے رہو کہ اُس نے ایک عضو یعنی زبان کو اپنی یاد کی توفیق عطا فرمائی، اور اللہ سے دل کی توجُّہ کے لیے دعا کرتے رہو۔ (مرقاۃ المفاتیح،کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ والتقرب الیہ، الفصل الثانی۴؍۶۵) اِس قِسم کا واقعہ ’’اِحیاء العُلوم‘‘ میں بھی ابوعثمان مغربیؒ کے متعلِّق نقل کیا گیا، کہ اُن سے کسی مُرید نے شکایت کی تھی جس پر اُنھوں نے یہ جواب دیا تھا۔(احیاء العلوم۴؍۴۸) درحقیقت بہترین نسخہ ہے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا کلامِ پاک میں ارشاد ہے کہ: اگر تم شکر کرو گے تو مَیں اِضافہ کروںگا۔ (إبراہیم آیت:۷) ایک حدیث میں وارد ہے کہ: اللہ کا ذکر اُس کی بڑی نعمت ہے، اُس کا شکر ادا کیا کرو کہ اللہ نے ذکر کی توفیق عطا فرمائی۔(جامع الصغیر۔۔۔۔۔۔۔۔) (۳) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! مَنْ أَسعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ یَومَ القِیَامَۃِ؟ قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَقَدْ ظَنَنتُ یَا أَبَاهُرَیرَۃَ! أَنْ لَایَسْئَلَنِي عَن هٰذَا الحَدِیثِ أَحَدٌ أَوَّلَ مِنكَ لِمَا رَأَیتُ مِن حِرصِكَ عَلَی الحَدِیثِ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي یَومَ القِیَامَۃِ مَن قَالَ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ خَالِصاً مِن قَلبِہٖ أَو نَفسِہٖ. (رواہ البخاري، وقد أخرجہ الحاکم بمعناہ، وذکر صاحب بهجۃ النفوس في الحدیث أربعا وثلاثین بحثاً) ترجَمہ: حضرت ابوہریرہص نے ایک مرتبہ حضورِاقدس ﷺ سے دریافت کیا کہ: آپ کی شَفاعت کا سب سے زیادہ نفع اُٹھانے والا قِیامت کے دن کون شخص ہوگا؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: مجھے احادیث پر تمھاری حِرص دیکھ کر یہی گمان تھا کہ اِس بات کوتم سے پہلے کوئی دوسرا شخص نہ پوچھے گا،(پھر حضورﷺ نے سوال کا جواب ارشاد فرمایا کہ:)سب سے زیادہ سَعادت مَند اور نفع اُٹھانے والا میری شفاعت کے ساتھ وہ شخص ہوگا جو دِل کے خُلوص کے ساتھ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ کہے۔ حِرص: رغبت۔ خَلاصی: چھُٹکارا۔ جَلِیلُ القَدر: بڑے مرتبے والا۔یکے بعد دِیگرے:ایک دوسرے کے بعد۔ جُرأت: ہِمَّت۔ مُنتفِع: فائدہ اُٹھانے والا۔ تَخفِیفِ عذاب: عذاب کا ہَلکا۔ فائدہ: سعادت کہتے ہیں کہ آدمی کو خیر کی طرف پہنچانے کے لیے توفیقِ الٰہی کے شاملِ حال ہونے کو، اب اخلاص سے کلمۂ طیبہ پڑھنے والے کا سب سے زیادہ مُستحقِ شفاعت ہونے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: ایک تو یہ کہ، اِس حدیث سے وہ شخص مراد ہے جو اخلاص سے مسلمان ہو اور کوئی نیک عمل بجُز کلمۂ طیبہ پڑھنے کے اُس کے پاس نہ ہو، اِس صورت میںظاہر ہے کہ سب سے زیادہ سَعادت اُس کو شَفاعت ہی سے حاصل ہوسکتی ہے، کہ اپنے پاس تو کوئی عمل نہیں ہے، اِس مطلب کے مُوافِق یہ حدیث اُن اَحادیث کے قریب قریب ہوگی جن میں ارشاد ہے کہ: میری شفاعت میری اُمَّت کے کَبِیرہ گناہ والوں کے لیے ہے، کہ وہ اپنے اَعمال کی وجہ سے جہنَّم میں ڈالے جائیںگے؛ لیکن کلمۂ طیبہ کی برکت سے حضورﷺ کی شَفاعت اُن کو نصیب ہوگی۔ (بخاری،کتاب التوحید،باب کلام الرب یوم القیامۃ مع الانبیاء،۲؍۱۱۱۸حدیث:۷۵۱۰) دوسرا مطلب یہ ہے کہ: اِس کے مِصداق وہ لوگ ہیں جو اخلاص سے اِس