فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
غرض مُتعدِّد روایات میں اچھی آواز سے تلاوت کی مَدح آئی ہے؛ مگر اِس کے ساتھ ہی گانے کی آواز میں پڑھنے کی مُمانَعت آئی ہے، جیسا کہ اوپر گزرچکا۔ حذیفہص کہتے ہیں کہ: حضور ا نے ارشاد فرمایا کہ: قرآن شریف کو عرب کی آواز میں پڑھو، عشق بازوں اور یہود ونصاریٰ کی آواز میں مت پڑھو، عنقریب ایک قوم آنے والی ہے جو گانے اور نوحہ کرنے والوں کی طرح سے قرآن شریف کو بنابناکر پڑھے گی، وہ تلاوت ذرا بھی اُن کے لیے نافِع نہ ہوگی، خود بھی وہ لوگ فتنے میں پڑیںگے، اور جن کو وہ پڑھنا اچھا معلوم ہوگا اُن کو بھی اُس فتنے میں ڈالیںگے۔ طاؤسؒ کہتے ہیں کہ: کسی نے حضورِ اقدس ﷺسے پوچھا کہ: اچھی آواز سے پڑھنے والاکون شخص ہے؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: وہ شخص کہ جب تُو اُس کو تلاوت کرتے دیکھے تو محسوس کرے کہ، اُس پر اللہ کا خوف ہے، یعنی اُس کی آواز سے مرعوب ہونا محسوس ہوتا ہو۔ اِس سب کے ساتھ اللہ جَلَّ وَعَلَا کا بڑا اِنعام یہ ہے کہ، آدمی اپنی حیثیت وطاقت کے موافق اِس کا مُکلَّف ہے۔ حدیث میں ہے کہ: حق سُبحَانَہٗ وَتَقَدُّس کی طرف سے فرشتہ اِس کام پر مُقرَّر ہے کہ، جو شخص کلامِ پاک پڑھے اور کَمَاحَقَّہٗ اُس کو درست نہ پڑھ سکے، تو وہ فرشتہ اُس کو درست کرنے کے بعد اوپر لے جاتا ہے۔ اَللّٰہُمَّ لَاأُحْصِي ثَنَاءً عَلَیكَ. (۲۷)عَن عُبَیدَۃَ المُلَیکِيِّ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: یَاأَهْلَ الْقُرْاٰنِ! لَاتَتَوَسَّدُوْا الْقُراٰنَ، وَاتْلُوہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِن اٰنَاءِ اللَّیلِ وَالنَّهَارِ، وَأَفْشُوہُ، وَتَغَنُّوہُ، وَتَدَبَّرُوا مَافِیْہِ؛ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ، وَلَاتَعْجَلُوا ثَوابَہٗ فَإنَّ لَہٗ ثَوَاباً. (رواہ البیهقي في شعب الإیمان) ترجَمہ: عُبیدہ مُلیکیصنے حضورِ اکرم ﷺسے نقل کیا ہے: قرآن والو! قرآن شریف سے تکیہ نہ لگاؤ، اور اُس کی تلاوت شب وروز ایسی کرو جیسا کہ اُس کا حق ہے، کلامِ پاک کی اشاعت کرو، اور اِس کو اچھی آواز سے پڑھو، اور اِس کے مَعانی میں تدبُّر کرو؛ تاکہ تم فَلاح کو پہنچو، اور اِس کابدلہ دنیا میں طلب نہ کرو، کہ (آخرت میں)اِس کے لیے بڑا اجر وبدلہ ہے۔ تدبُّر: غور۔ فَلاح: کامیابی۔ پُشت: پیٹھ۔ حق تَلفی: حق کو ضائع کرنا۔ تَرسَم نہ رَسی بہ کعبہ اے اعرابی! ء کِیں رَہ کہ تُو مِیروی بہ تُرکِستان است: اے دیہاتی! مجھے ڈر ہے کہ تُو کعبہ تک نہ پہنچ پائے گا؛ اِس لیے تُو جس راستے سے جارہا ہے وہ تُرکستان کا ہے۔ دَریغ: کوتاہی۔ جبرِیہ: زبردستی۔ مُسلَّم: مان لیا۔ سُبکدوش: بَری۔ نوٹِس: عدالت کی طرف سے جاری کی ہوئی اِطِّلاع۔ حُمیّٰ دِق: ٹی بی کابُخار۔ سَنکِھیا: زَہر۔ ہَمہ تَن: پوری طرح سے۔ مُعاوَضہ: بدلہ۔ ہَیبت: عظمت۔ فہمِ قرآن: قرآن کی سمجھ بوجھ۔ فائدہ:حدیثِ بالا میں چند اُمور ارشاد فرمائے ہیں: (۱) قرآن شریف سے تکیہ نہ لگاؤ، قرآن شریف سے تکیہ نہ لگانے کے دومفہوم ہیں: اول یہ کہ اُس پر تکیہ نہ لگاؤ کہ یہ خلافِ ادب ہے۔ ابنِ حجرؒ نے لکھا ہے