فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مِنهَا یَاجِبرَئِیلُ؟ قَالَ: کِتَابُ اللہِ. (رواہ رزین، کذا في الرحمۃ المهداۃ) ترجَمہ: ابن عباس صکہتے ہیں کہ: حضرت جبرئیل ں نے حضورِ اقدس ﷺ کو اِطِّلاع دی کہ: بہت سے فِتنے ظاہر ہوںگے، حضور ﷺنے دریافت فرمایا کہ: اُن سے خَلاصی کی کیا صورت ہے؟ اُنھوں نے کہا کہ: قرآن شریف۔ خَلاصی: چھُٹکارا۔ کَفِیل: ذمہ دار۔مُحافِظ: حفاظت کرنے والا۔ دَفع: دُور۔ فائدہ: کتابُ اللہ پر عمل بھی فتنوں سے بچنے کا کَفِیل ہے، اور اُس کی تلاوت کی برکت بھی فتنوں سے خَلاصی کا سبب ہے۔ حدیث نمبر ۲۲؍ میں گزر چکا کہ: جس گھر میں کلامِ پاک کی تلاوت کی جاتی ہے سکینہ اور رحمت اُس میں نازل ہوتی ہے، اور شیاطین اُس گھر سے نکل جاتے ہیں۔ فتنوں سے مراد خُروجِ دَجَّال، فتنۂ تاتار وغیرہ عُلَما نے بتلائے ہیں۔ حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ سے بھی ایک طویل روایت میں حدیثِ بالا کا مضمون وارد ہوا ہے کہ: حضرت علی صکی روایت میں وارد ہے کہ: حضرت یحییٰ ں نے بنی اسرائیل سے کہا کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗتم کو اپنے کلام کے پڑھنے کا حکم فرماتا ہے، اور اُس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی قوم اپنے قِلعے میں محفوظ ہو اور اُس کی طرف کوئی دُشمن مُتوجَّہ ہو، کہ جس جانب سے بھی وہ حملہ کرنا چاہے اُس جانب میں اللہ کے کلام کو اُس کا مُحافِظ پاوے گا، اور وہ اُس دشمن کو دَفع کردے گا۔ خاتمۃٌ فِي عِدَۃِ رِوَایَاتٍ زَائِدَۃٍ عَلَی الأَرْبَعِینَۃِ لَابُدَّ مِن ذِکرِهَا؛ لِأَغرَاضٍ تُنَاسِبُ المَقَامَ. (۱) عَن عَبدِالمَلِكِ بنِ عُمَیرٍ مُرسَلًا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: فِي فَاتِحَۃِ الکِتَابِ شِفَاءٌ مِن کُلِّ دَاءٍ. (رواہ الدارمي والبیهقي في شعب الإیمان) ترجَمہ: عبدالملک بن عُمیر حضورِ اکرم ﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: سورۂ فاتحہ میں ہر بیماری سے شِفا ہے۔ خاتمے میں بعض ایسی سورتوں کے فضائل ہیں جو پڑھنے میں بہت مختصر؛ لیکن فضائل میں بہت بڑھی ہوئی ہیں۔ اور اِسی طرح دو ایک ایسے خاص امر ہیں جن پر تنبیہ قرآن پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے۔ وَحدانیت: ایک ہونا۔ صِحاح: صحیح حدیثوں۔ مِرگی: ایک بیماری جس میں آدمی اچانک زمین پر گر کر بے ہوش ہوجاتا ہے، ہاتھ پیر ٹیرھے ہوجاتے ہیں، اور منھ سے جھاگ نکلتا ہے۔ لُعابِ دَہن: تھوک۔ نوحہ اور زَاری: رونے پیٹنے۔ نَوچندی: اسلامی مہینے کی پہلی۔ فَبِہا:توٹھیک۔ اَمراض مُزمِنَہ: پُرانی بیماریاں۔ فائدہ:سورۂ فاتحہ کے فضائل بہت سی روایات میں وارِد ہوئے ہیں، ایک حدیث میں آیا ہے کہ: ایک صحابی نماز پڑھتے تھے، حضورﷺنے اُن کو بلایا، وہ نماز کی وجہ سے جواب نہ دے سکے، جب فارغ ہوکر حاضر ہوئے تو حضور ﷺنے فرمایا کہ: میرے پکارنے پر جواب کیوں نہیں دیا؟ اُنھوں نے نماز کا عذر کیا، حضورﷺنے فرمایا کہ: قرآن شریف کی آیت میںنہیں پڑھا: