فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ایسی باتیں اُن میں پکڑے جن کو تُو خود کرتا ہے؛ پھر حضورﷺنے اپنا دستِ شفقت میرے سینے پر مار کر ارشاد فرمایا کہ: ابوذَر! تدبیر کی برابر کوئی عقل مَندی نہیں، اور ناجائز اُمورسے بچنے کی برابر تقویٰ نہیں، اور خوش خُلقی سے بڑھ کر کوئی شرافت نہیں‘‘۔ انتہیٰ اِس میں خلاصہ اور مطلب کازیادہ لحاظ کیا گیا، تمام الفاظ کے ترجَمے کا لحاظ نہیں کیاگیا۔ (۲۲) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ أنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: مَا اجتَمَعَ قَومٌ فِي بَیتٍ مِن بُیُوتِ اللہِ یَتلُونَ کِتَابَ اللہِ وَیَتَدَارَسُونَہٗ بَینَهُمْ إلَّا نَزَلَتْ عَلَیهِمُ السَّکِینَۃُ، وَغَشِیَتْهُمُ الرَّحْمَۃُ، وَحَفَّتْهُمُ المَلٰئِکَۃُ، وَذَکَرَهُمُ اللہُ فِی مَنْ عِندَہٗ. (رواہ مسلم وأبوداود) ترجَمہ: ابوہریرہ صنے حضورِ اقدس ﷺکا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ: کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں مُجتمَع ہوکر تلاوتِ کلام پاک اور اُس کا دَور نہیں کرتی؛ مگر اُن پر سَکِینہ نازل ہوتی ہے، اور رحمت اُن کو ڈھانپ لیتی ہے، ملائکۂ رحمت اُن کو گھیر لیتے ہیں، اور حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُن کا ذِکر مَلائکہ کی مجلس میں فرماتے ہیں۔ مُجتمَع: جمع۔ اَرزاں: سَستا۔ تَعارُض: ایک دوسرے کے خلاف ہونا۔ طَشت:تھال۔ بَشارت: خوش خبری۔ مانع: رُکاوَٹ۔ دَرج: لکھے ہوئے۔ اِنقِطاع: تعلُّق ختم۔ اَبَر: بادل۔ اِژدِحام: بھِیڑ۔ پُشتانی: نَسلوں سے۔ رَذِیل: نیچے درجے کا۔ فائدہ:اِس حدیث شریف میں مَکاتِب اور مدرسوں کی خاص فضیلت ذکر فرمائی گئی، جو بہت سی انواعِ اِکرام کو شامل ہے، اِن میں سے ہر ہر اِکرام ایسا ہے کہ جس کے حاصل کرنے میں اگر کوئی شخص اپنی تمام عُمر خرچ کردے تب بھی اَرزاں ہے، پھر چہ جائے کہ ایسے ایسے مُتعدِّد انعامات فرمائے جائیں، بالخصوص آخری فضیلت: آقا کے دربار میں ذِکر، محبوب کی مجلس میں یاد، ایک ایسی نعمت ہے جس کا مقابلہ کوئی چیزبھی نہیں کرسکتی۔ سکینہ کانازل ہونا متعدَّد روایات میں وارِد ہوا ہے، اِس کے مصداق میں مشائخِ حدیث کے چند قول ہیں؛ لیکن اُن میں کوئی ایسا اختلاف نہیں کہ جس سے آپس میں کچھ تَعارُض ہو؛ بلکہ سب کا مجموعہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ حضرت علی صسے ’’سَکِینہ‘‘ کی تفسیر یہ نقل کی گئی کہ: وہ ایک خاص ہَوا ہے جس کاچہرہ انسان کے چہرے جیسا ہوتا ہے۔ علامہ سُدِّیؒ سے نقل کیا گیا کہ: وہ جنت کے ایک طَشت کانام ہے جو سونے کا ہوتا ہے، اُس میں انبیاء کے قُلُوب کو غُسل دیا جاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ: یہ خاص رحمت ہے۔ طَبریؒ نے اِس کو پسند کیا ہے کہ: اِس سے سکونِ قلب مراد ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ: طَمانِیت مراد ہے۔ بعض نے اِس کی تفسیر وَقار سے کی ہے، تو کسی نے ملائکہ سے۔ بعض نے اَور بھی اقوال کہے ہیں، حافظؒ کی رائے ’’فتح الباری‘‘ میں یہ ہے کہ: سکینہ کا اِطلاق سب پر آتا ہے۔ نوویؒ کی رائے ہے کہ: یہ کوئی ایسی چیز ہے جو جامع ہے طمانیت، رحمت وغیرہ کو، اور ملائکہ کے ساتھ نازل ہوتی ہے۔ کلامُ اللہ شریف