فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اِن وُجوہ سے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے یاد کرنے والوں اور اپنی عبادت کرنے والوں کے کارنامے جَتاتے ہیں۔ چوتھا مضمون حدیث میں یہ ہے کہ، بندہ جس درجے میں حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی طرف متوجَّہ ہوتا ہے اُس سے زیادہ توجُّہ اور لُطف اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی طرف سے اُس بندے پر ہوتا ہے، یہی مطلب ہے قریب ہونے اور دوڑ کر چلنے کا، کہ میرا لُطف اور میری رحمت تیزی کے ساتھ اُس کی طرف چلتی ہے، اب ہر شخص کواپنا اِختیار ہے کہ جس قدر رحمت ولُطفِ اِلٰہی کو اپنی طرف متوجَّہ کرنا چاہتا ہے اُتنی ہی اپنی توجُّہ اللہتَعَالیٰ شَانُہٗ کی طرف بڑھائے ۔ پانچوِیں بحث اِس حدیث شریف میںیہ ہے کہ، اِس میں فرشتوں کی جماعت کو بہتر بتایا ہے ذکر کرنے والے شخص سے؛ حالاںکہ یہ مشہور اَمر ہے کہ انسان اَشرفُ المَخلُوقات ہے، اِس کی وجہ تو ترجَمے میں ظاہر کردی گئی، کہ اُن کا بہتر ہونا ایک خاص حیثیت سے ہے، کہ وہ معصوم ہیں، اُن سے گناہ ہو ہی نہیں سکتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ، یہ بہ اعتباراکثر اَفراد کے ہے، کہ اکثر افراد فرشتوں کے، اکثر آدمیوں؛ بلکہ اکثر مومنوں سے افضل ہیں، گو خاص مومن جیسے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَامُ سارے ہی فرشتوں سے افضل ہیں۔ اِس کے عِلاوہ اَور بھی وُجوہ ہیں جن میں بحث طَوِیل ہے۔ (۲) عَنْ عَبدِاللہِ بنِ بُسرٍ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَارَسُولَ اللہِ! إنَّ شَرَائِعَ الإسْلَامِ قَدْ کَثُرَتْ عَلَيَّ، فَأَخْبِرْنِي بِشَيئٍ أَسْتَنُّ بِہٖ، قَالَ: لَایَزَالُ لِسَانُكَ رَطَباً مِن ذِکرِ اللہِ. (أخرجہ ابن أبي شیبۃ، وأحمد، والترمذي وحسنہ، وابن ماجہ، وابن حبان في صحیحہ، والحاکم وصححہ، والبیهقي؛ کذا في الدر. وفي المشکاۃ بروایۃ الترمذي وابن ماجہ، وحکی عن الترمذي حسن غریب،اھ. قلت: وصححہ الحاکم وأقرہ علیہ الذهبي، وفي الجامع الصغیر بروایۃ أبي نُعیم في الحِلیۃ مختصرا بلفظ: ’’أَنْ تُفَارِقَ الدُّنیَا وَلِسَانُكَ رَطْبٌ مِن ذِکرِ اللہِ‘‘، ورقم لہ بالضعف. وبمعناہ عن مالك بن یخامر: ’’أَنَّ مُعَاذَ ابنِ جَبَلٍ قَالَ لَهُم: إِنَّ اٰخِرَ کَلَامٍ فَارَقْتُ عَلَیہِ رَسُولَ اللہِﷺ أَنْ قُلتُ: أَيُّ الأَعمَالِ أَحَبُّ إلَی اللہِ؟ قَالَ: أَن تَمُوْتَ وَلِسَانُكَ رَطْبٌ مِن ذِکرِ اللہِ‘‘. أخرجہ ابن أبي الدنیا، والبزار، وابن حبان، والطبراني، والبیهقي؛ کذا في الدر، والحصن الحصین، والترغیب للمنذري، وذکرہ في الجامع الصغیر مختصرا وعزاہ إلی ابن حبان في صحیحہ، وابن السني في ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘، والطبراني في ’’الکبیر‘‘، والبیهقي في ’’الشعب‘‘، وفي ’’مجمع الزوائد‘‘ رواہ الطبراني بأسانید) ترجَمہ:ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! احکام توشریعت کے بہت سے ہیںہی، مجھے ایک چیز کوئی ایسی بتادیجیے جس کو مَیں اپنا دَستور اور اپنامَشغَلہ بنالوں، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ کے ذکر سے تو ہر وَقت رَطبُ اللِّسان رہے۔ ایک اَور حدیث میں ہے: حضرت مُعاذص فرماتے ہیں کہ: جُدائی کے وقت آخری گفتگو جو حضورﷺسے ہوئی وہ یہ تھی: مَیں نے دریافت کیا کہ: سب اعمال میں محبوب ترین عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: اِس حال میں تیری موت آوے کہ اللہ کے ذکر میں رَطبُ اللِّسان ہو۔ بَجا آوری: عمل کرنا۔ سابِقہ: واسطہ۔ تَراوَٹ: تازگی۔ چَسک: مزا۔ فائدہ:جدائی کے وقت کا مطلب یہ ہے کہ، حضورِ اقدس ﷺ نے حضرت