فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کارنامے اِس سے کہیں بڑھے ہوئے ہیں۔ (۸)’’بِیرمَعُونہ‘‘ کی لڑائی مَضَرَّت: تکلیف۔ ہمراہ: ساتھ۔ والانامہ: خط۔ رَئیس: امیر۔ دَغا: دھوکہ۔ عَداوَت: دشمنی۔ جاں بحق: مَرجانا۔ آمادہ: اُبھارنا۔ تردُّد: آگے پیچھے۔ بجُز: سِوا۔ رَمَق: تھوڑی سی جان۔ مُردار خور: مُردہ کھانے والے۔ حادِثہ: واقعہ۔ ٹھِٹکے: حیران ہوکر ٹھہر گئے۔ باہم: آپس میں۔ مُتحیَّر: حیران۔سُرخ رُوئی: کامیابی۔ ’’بیرِمَعونہ‘‘ کی ایک مشہور لڑائی ہے جس میں سَتَّر(۷۰) صحابہ ث کی ایک بڑی جماعت پوری کی پوری شہید ہوئی، جن کو ’’قُرَّاء‘‘ کہتے ہیں؛ اِس لیے کہ سب حضرات قرآن مجید کے حافظ تھے، اور سِوائے چند مُہاجِرین کے اکثر انصار تھے، حضورﷺ کواُن کے ساتھ بڑی محبت تھی؛ کیوں کہ یہ حضرات رات کا اکثر حصہ ذکروتلاوت میں گزارتے تھے، اور دن کوحضورﷺ کی بیویوں کے گھروں کی ضروریات: لکڑی،پانی، وغیرہ پہنچایاکرتے تھے، اِس مقبول جماعت کو ’’نَجد‘‘ کا رہنے والا قومِ بنی عامر کا ایک شخص -جس کانام عامربن مالک اورکنیت ابوبَراء تھی- اپنے ساتھ اپنی پناہ میں تبلیغ اوروعظ کے نام سے لے گیا تھا، حضورِاقدس ﷺنے ارشادبھی فرمایا کہ: ’’مجھے اندیشہ ہے کہ میرے اَصحاب کو مَضَرَّت نہ پہنچے‘‘؛ مگر اُس شخص نے بہت زیادہ اطمینان دلایا، آپ ﷺ نے اِن ستَّرصحابہ کو ہمراہ کر دیا، اور ایک والانامہ عامربن طُفیل کے نام -جو بنی عامرکارَئیس تھا- تحریر فرمایا، جس میں اسلام کی دعوت تھی، یہ حضرات مدینہ سے رخصت ہوکر ’’بِیرِمَعونہ‘‘ پہنچے تو ٹھہر گئے، اور دو ساتھی: ایک حضرت عمر بن اُمَیہص، دوسرے حضرت مُنذِر بن عَمروص سب کے اونٹوں کو لے کر چَرانے کے لیے تشریف لے گئے، اورحضرت حَرام صاپنے ساتھ دو حضرات کوساتھیوں میں سے لے کرعامر بن طفیل کے پاس حضورﷺ کاوالانامہ دینے کے لیے تشریف لے گئے، قریب پہنچ کر حضرت حرام ص نے اپنے دونوں ساتھیوں سے فرمایا کہ: تم یہیں ٹھہرجاؤ، مَیں آگے جاتا ہوں، اگر میرے ساتھ کوئی دَغا نہ کی گئی تو تم بھی چلے آنا؛ ورنہ یہیں سے واپس ہوجانا، کہ تین کے مارے جانے سے ایک کامارا جانا بہتر ہے، عامر بن طفیل اِس عامر بن مالک کابھتیجہ تھا جواِن صحابہ ث کو اپنے ساتھ لایا تھا، اُس کواسلام سے اور مسلمانوں سے خاص عَداوَت تھی، حضرت حرام صنے والا نامہ دیا تو اُس نے غصے میں پڑھابھی نہیں؛ بلکہ حضرت حرام صکے ایک ایسا نیزہ مارا جو پار نکل گیا، حضرت حرامص ’’فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘ (ربِّ کعبہ کی قَسم! مَیں توکامیاب ہوگیا)کہہ کرجاں بحق ہوئے، اُس نے نہ اِس کی پرواہ کی کہ قاصِد کومارنا کسی قوم کے نزدیک بھی جائز نہیں، اور نہ اِس کالحاظ کیا کہ میرا چچا اِن حضرات