فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
بُرائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے، پس یہ لوگ عیدگاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ اُن کے گناہ مُعاف ہوچکے ہوتے ہیں۔ طَعَن: مَلامت۔ عُلُوِّ شان: بلند مرتبہ۔ تَصرِیح: وَضاحت۔شَاغِل: مشغول رہنے والا۔حَرام کارِی: زِنا۔ جُنُبی: وہ آدمی جسے جماع یا اَحتلام کی وجہ سے غُسل واجب ہو۔ فائدہ:حضرت جبرئیل ں کا ملائکہ کے ساتھ آنا خود قرآنِ پاک میں بھی مذکور ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا، اور بہت سی احادیث میں بھی اِس کی تَصرِیح ہے۔ رسالے کی سب سے اخیر حدیث میں اِس کا مُفصَّل ذکر آرہا ہے کہ: حضرت جبرئیل ں تما م فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں کہ: ہرذَاکر وشَاغِل کے گھرجاویں اور اُن سے مُصافَحہ کریں۔ ’’غَالِیَۃُ المَواعِظ‘‘ میں حضرتِ اقدس شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی ’’غُنیۃ‘‘ سے نقل کیا ہے کہ: ابنِ عباسص کی حدیث میں ہے کہ: فرشتے حضرت جبرئیل کے کہنے سے مُتفَرِّق ہوجاتے ہیں، اور کوئی گھر چھوٹا بڑا، جنگل یا کشتی ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی مومن ہو اور وہ فرشتے مصافحہ کرنے کے لیے وہاں نہ جاتے ہوں؛ لیکن اُس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتَّا یا سُوَّر ہو، یا حَرام کارِی کی وجہ سے جُنُبی یاتصویر ہو۔ مسلمانوں کے کتنے گھرانے ایسے ہیں جن میں خَیالی زِینت کی خاطر تصویریں لَٹکائی جاتی ہیں اور اللہ کی اِتنی بڑی نعمتِ رحمت سے اپنے ہاتھوں اپنے کو محروم کرتے ہیں! تصویر لَٹکانے والا ایک آدھ ہوتا ہے؛ مگر اُس گھر میں رحمت کے فرشتوں کے داخل ہونے سے روکنے کا سبب بن کر سارے ہی گھر کواپنے ساتھ محروم رکھتاہے۔ (۴) عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: تَحَرُّوا لَیلَۃَ القَدرِ فِي الوِترِ مِنَ العَشرِ الأَوَاخِرِ مِن رَمَضَانَ. (مشکوۃ عن البخاري) ترجَمہ: حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا نبیٔ کریم ﷺسے نقل فرماتی ہیں کہ: لَیلۃُ القدر کو رمَضان کے اَخیر عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ عَشرے: دس دن۔ عُرفی اگر بگِریہ مُیسَّر شُدے وِصال ء صَد سال می تَواں بہ تمنَّا گِریستَن: اے عرفی! اگر محض رونے سے محبوب کی ملاقات ہوجایاکرتی، تو سینکڑوں سال اِس تمنا میں رَویا جاسکتا ہے۔ فائدہ:جَمہُور عُلَما کے نزدیک اخیرعشرہ اِکیسویں رات سے شروع ہوتا ہے، عام ہے کہ مہینہ ۲۹؍ کا ہو یا ۳۰؍ کا، اِس حساب سے حدیثِ بالا کے مطابق شبِ قدر کی تلاش ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷، ۲۹؍ راتوں میں کرنا چاہیے، اگر مہینہ ۲۹؍ کا ہوتب بھی اَخیر عشرہ یہی کہلاتا ہے؛ مگر ابنِ حَزمؒ کی رائے ہے کہ: عشرہ کے معنیٰ دس کے ہیں؛ لہذا اگر تیس کا چاند رمَضانُ المبارک کا ہو تب تو یہ ہے؛ لیکن اگر ۲۹؍ کا چاند ہوتو اِس صورت میں اَخیر عشرہ بیسویں شب سے شروع ہوتا ہے، اور اِس صورت میں وِتر راتیں یہ ہوںگی: ۲۰، ۲۲، ۲۴، ۲۶، ۲۸؛لیکن نبیٔ کریم ﷺ لیلۃُ القَدر ہی کی تلاش میں رمَضان المبارک کا اعتکاف فرمایا