فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تمناتھی کہ کوئی دوسری لڑائی ہو توحوصلے پورے کروں، اتفاق سے اُحُد کی لڑائی پیش آگئی جس میںیہ بڑی بہادری اور دِلیری سے شریک ہوئے، اُحُد کی لڑائی میں اوّل اوّل تومسلمانوں کوفتح ہوئی؛ مگرآخر میں ایک غلَطی کی وجہ سے مسلمانوں کوشِکست ہوئی، وہ غلَطی یہ تھی کہ حضورِاکرم ﷺنے کچھ آدمیوں کو ایک خاص جگہ مُقرَّر فرمایاتھا،کہ تم لوگ اِتنے مَیں نہ کہوں اِس جگہ سے نہ ہٹنا، کہ وہاں سے دشمن کے حملہ کرنے کا اندیشہ تھا، جب مسلمانوں کوشروع میں فتح ہوئی تو کافروں کو بھاگتا ہوا دیکھ کر یہ لوگ بھی اپنی جگہ سے یہ سمجھ کرہٹ گئے کہ اب جنگ ختم ہوچکی؛ تجویز:متعین۔ پَرستِش: بندگی۔ پَیرَو: فرماںبردار،پیچھے چلنے والا۔ دِلیری: جرأت۔مَلامت کرنا: برابھلا کہنا۔ اِس لیے بھاگتے ہوئے کافروں کا پیچھا کیا جائے، اورغَنِیمت کا مال حاصل کیاجائے، اِس جماعت کے سردار نے منع بھی کیا، کہ حضورﷺ کی مُمانَعت تھی، تم یہاں سے نہ ہٹو؛ مگراِن لوگوں نے یہ سمجھ کرکہ حضور ﷺکا ارشاد صرف لڑائی کے وقت کے واسطے تھا، وہاںسے ہٹ کرمیدان میں پہنچ گئے، بھاگتے ہوئے کافروں نے اُس جگہ کوخالی دیکھ کر اُس طرف سے آکرحملہ کردیا، مسلمان بے فکر تھے، اِس اچانک بے خبری کے حملے سے مغلوب ہوگئے اوردونوں طرف سے کافروںکے بیچ میں آگئے،جس کی وجہ سے اِدھراُدھر پریشان بھاگ رہے تھے، حضرت انس ص نے دیکھا کہ سامنے سے ایک دوسرے صحابی حضرت سعدبن معاذصآرہے ہیں، اُن سے کہاکہ: ’’اے سعد! کہاجارہے ہو؟ خداکی قسم! جنت کی خوشبو اُحُدکے پہاڑسے آرہی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر-تلوارتوہاتھ میں تھی ہی- کافروں کے ہُجوم میں گھُس گئے، اوراِتنے شہید نہیں ہوگئے واپس نہیں ہوئے۔ شہادت کے بعد اُن کے بدن کو دیکھا گیا تو چھَلنی ہوگیا تھا، اَسّی(۸۰) سے زیادہ زخم تیر اور تلوارکے بدن پرتھے۔ اُن کی بہن نے انگلیوں کے پوروں سے اُن کوپہچانا۔ (بخاری، کتاب الجہاد، ح: ۲۷۲۲، ۱؍ ۳۹۳) فائدہ:جو لوگ اخلاص اورسچی طلب کے ساتھ اللہ کے کام میں لگ جاتے ہیں اُن کودنیا ہی میں جنت کا مزہ آنے لگتا ہے، یہ حضرت انس ص زندگی ہی میں جنت کی خوشبو سونگھ رہے تھے۔ اگر اخلاص آدمی میں ہوجائے تودنیا میںبھی جنت کامزہ آنے لگتا ہے۔ مَیں نے ایک معتبر شخص سے -جوحضرت اقدس مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوریؒ کے مُخلِص خادم ہیں- حضرتؒ کامَقُولہ سنا ہے کہ: ’’جنت کامزہ آرہا ہے‘‘۔ ’’فضائلِ رمضان‘‘ میں اِس قصے کولکھ چکاہوں۔