فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
طرف سے حملہ نہ کریں۔ (۱۳) عَن أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الجَنَّۃِ فَارتَعُوْا، قَالَ: وَمَا رِیَاضُ الجَنَّۃِ؟ قَالَ: حِلَقُ الذِّکرِ. (أخرجہ أحمد والترمذي وحسنہ، وذکرہ في المشکاۃ بروایۃ الترمذي، وزاد في الجامع الصغیر، والبیهقي في الشعب ورقم لہ بالصحۃ. وفي الباب عن جابر عند ابن أبي الدنیا، و البزار، وأبي یعلیٰ، والحاکم وصححہ، والبیهقي في الدعوات؛ کذا في الدر. وفي الجامع الصغیر بروایۃ الطبراني عن ابن عباس بلفظ ’’مجالس العلم‘‘، وبروایۃ الترمذي عن أبي هریرۃ بلفظ ’’المساجد‘‘ محل ’’حلق الذکر‘‘، وزاد الرتع. سُبْحَانَ اللہِ اَلحَمدُ لِلّٰہِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ اَللہُ أَکبَر) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: جب جنت کے باغوں پر گزرو تو خوب چَرو، کسی نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! جنت کے باغ کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ: ذِکر کے حلقے۔ رَسائی: پہنچنا۔ تفکُّرات:خَیالات۔ مَوانِع:رُکاوَٹیں۔ مُداوَمت: ہمیشگی۔ ہم نشین: ساتھ بیٹھنے والا۔ مُتفَرِّع: موقوُف۔ فائدہ:مقصود یہ ہے کہ کسی خوش قِسمت کی اِن مجالس، اِن حلقوں تک رَسائی ہوجائے تو اُس کو بہت زیادہ غنیمت سمجھنا چاہیے، کہ یہ دنیا ہی میں جنت کے باغ ہیں۔ اور ’’خوب چَرو‘‘ سے اِس طرف اشارہ فرمایا کہ: جیسے جانور جب کسی سبزہ زار یا کسی باغ میں چَرنے لگتا ہے تو معمولی سے ہٹانے سے بھی نہیں ہٹتا؛ بلکہ مالک کے ڈنڈے وغیرہ بھی کھاتا رہتا ہے؛ لیکن اُدھر سے منھ نہیں موڑتا، اِسی طرح ذکر کرنے والے کو بھی دُنیاوی تفکُّرات اور مَوانِع کی وجہ سے اِدھر سے منھ نہ موڑنا چاہیے۔ اور ’’جنت کے باغ‘‘ اِس لیے فرمائے کہ: جیسا کہ جنت میں کسی قِسم کی آفت نہیں ہوتی اِسی طرح یہ مجالس بھی آفات سے محفوظ رہتی ہیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: اللہ کا ذکر دِلوں کی شفا ہے۔(شعب الایمان، ۔۔۔۔حدیث:۷۰۵) یعنی دل میں جس قِسم کے اَمراض پیدا ہوتے ہیں: تکبُّر،حَسد، کِینہ، وغیرہ؛ سب ہی اَمراض کا علاج ہے۔ ’’صَاحِبُ الفَوائِد فِي الصَّلَاتِ وَالعَوَائِد‘‘نے لکھا ہے کہ: آدمی ذکر پر مُداوَمت سے تمام آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اور صحیح حدیث میں آیا ہے: حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ: مَیں تمھیں ذکرُ اللہ کی کثرت کا حکم کرتا ہوں، اور اِس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پیچھے کوئی دشمن لگ جائے اور وہ اُس سے بھاگ کر کسی قلعے میں محفوظ ہوجائے۔ اور ذکر کرنے والا اللہجَلَّ شَانُہٗکا ہم نشین ہوتا ہے۔(ترمذی، ابواب الأمثال، باب ماجاء مثل الصلاۃ والصیام والصدقۃ،حدیث:۲۸۶۳،۲؍۱۱۴) اور اِس سے بڑھ کر اَور کیا فائدہ ہوگا کہ وہ مالکُ المُلک کا ہم نشین ہوجائے۔ اِس کے عِلاوہ اِس سے شرحِ صَدر ہوجاتا ہے، دل مُنوَّر ہوجاتا ہے، اُس کے دل کی سختی دُور ہوجاتی ہے، اِس کے عِلاوہ اَور بھی بہت سے ظاہری اور