فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اور اِس کے بالمقابل اغراضِ دُنیویہ میں کوشش کے بعد اگر نتیجہ مُرتَّب نہ ہو تو وہ کوشش بے کار اور ضائع؛ لیکن اِس پر بھی کتنے لوگ ہیں کہ دُنیوی اَغراض اور بے کار لَغو اُمور کے حاصل کرنے کے لیے جان ومال دونوں کو برباد کرتے ہیں۔ ع بہ بیں تفاوُتِ رہ اَز کُجا است تا بہ کُجا (۶) عَنْ عُبَادَۃَ بنِ الصَّامِتِ أَنَّہٗ سَأَلَ رَسُولَ اللہِﷺ عَنْ لَیْلَۃِ القَدرِ، فَقَالَ: فِي رَمَضَانَ فِي العَشرَۃِ الأَوَاخِرِ، فَإنَّهَا فِي لَیلَۃِ وِترٍ: فِي إحدیٰ وَعِشرِینَ، أو ثَلٰثٍ وَّعِشرِینَ، أو خَمسٍ وَّعِشرِینَ، أو سَبعٍ وَّعِشرِینَ، أو تِسعٍ وَّعِشرِینَ، أو اٰخِرِ لَیلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ؛ مَنْ قَامَهَا إیمَاناً وَّاِحتِسَاباً غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنبِہٖ، وَمِن أَمَارَاتِهَا: أَنَّهَا لَیلَۃٌ بَلجَۃٌ صَافِیَۃٌ، سَاکِنَۃٌ سَاجِیَۃٌ، لَاحَارَّۃٌ وَلَابَارِدَۃٌ، کَانَ فِیهَا قَمَراً سَاطِعاً، وَلَایَحِلُّ لِنَجمٍ أن یُّرمیٰ بِہٖ تِلكَ اللَّیلَۃَ حَتَّی الصَّبَاحِ. وَمِن أمَارَاتِهَا: أنَّ الشَّمسَ تَطلُعُ صَبِیحَتَهَا لَاشُعَاعَ لَهَا، مُستَوِیَۃً کَأَنَّهَا القَمَرُ لَیلَۃَ البَدرِ، وَحَرَّمَ اللہُ عَلَی الشَّیطَانِ أن یَّخرُجَ مَعَهَا یَومَئِذٍ. (درمنثور عن أحمد، والبیهقي، ومحمد بن نصر وغیرهم) ترجَمہ: حضرت عُبادہ صنے نبیٔ کریم ﷺ سے شبِ قدر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: رمَضان کے اخیر عشرے کی طاق راتوں میں ہے: ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷، ۲۹ یا رمَضان کی آخر رات میں؛ جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے اِس رات میں عبادت کرے اُس کے پِچھلے سب گناہ مُعاف ہوجاتے ہیں۔ اِس رات کی مِن جُملہ اَور علامتوں کے یہ ہے کہ: وہ رات کھلی ہوئی چمک دار ہوتی ہے، صاف شَفَّاف، نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی؛ بلکہ مُعتَدِل، گویا کہ اُس میں (اَنوار کی کثرت کی وجہ سے)چاند کھلا ہوا ہے، اِس رات میں صبح تک آسمان کے سِتارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے۔ نیز اِس کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ: اِس کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شُعاع کے طلوع ہوتا ہے، ایسا بالکل ہموار ٹِکیہ کی طرح ہوتا ہے جیسا کہ چودھویں رات کا چاند، اللہ جَلَّ شَانُہٗنے اِس دن کے آفتاب کے طلوع کے وقت شیطان کو اُس کے ساتھ نکلنے سے روک دیا(بہ خلاف اَور دنوں کے، کہ طلوعِ آفتاب کے وقت شیطان کا اُس جگہ ظُہور ہوتاہے۔) لاَبُدِّی: ضروری۔ فائدہ:اِس حدیث کا اوّل مضمون تو سابِقہ روایات میں ذکر ہوچکا ہے، آخر میں شبِ قدر کی چند علامات ذکر کی ہیں، جن کامطلب صاف ہے، کسی توضیح کامحتاج نہیں۔ اِن کے عِلاوہ اَور بھی بعض علامات روایات میں اور اُن لوگوں کے کلام میں ذکر کی گئی ہیں جن کو اِس رات کی دولت نصیب ہوئی ہے،بِالخُصوص اِس رات کے بعد جب صبح کو آفتاب نکلتا ہے تو بغیر شُعاع کے نکلتاہے، یہ علامت بہت سی روایاتِ حدیث میں وارد ہوئی ہے اور ہمیشہ پائی جاتی ہے۔ اِس کے عِلاوہ اَور علامتیں لازمی اور لاَبُدِّی نہیں ہیں۔ عَبدہ بن اَبی لُبابہص کہتے ہیں کہ: مَیں نے رمَضان المبارک کی ستائیس شب کو سمندر کاپانی چکھاتو پانی بالکل میٹھا تھا۔ ایوب بن خالدؒ کہتے ہیں کہ: مجھے نہانے کی ضرورت ہوگئی، مَیں نے سمندر کے پانی سے غسل کیاتوبالکل میٹھاتھا، اور یہ تیئیسویں شب کا قصہ ہے۔