فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہے، ہم جھوٹی محبتوں میں دیکھتے ہیں کہ جس سے محبت ہوجاتی ہے اُس کا نام لینے میں لُطف آتا ہے، بے فائدہ اُس کو رَٹا جاتا ہے، تو اللہ کی محبت کا کیا کہنا جودین اور دنیا میں دونوں جگہ کام آنے والی ہے!۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت بلال ص کو ہر طرح سے ستایا جاتا تھا، سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی تھیں، مکہ کے لڑکوں کے حوالے کردیا جاتا کہ وہ اُن کو گلی کُوچوں میں چَکّر دیتے پھرے، اور یہ تھے کہ ’’ایک ہی ایک ہے‘‘ کی رَٹ لگاتے تھے، اِسی کا یہ صلہ مِلا کہ پھر حضورﷺ کے دربار میں مؤذِّن بنے، اور سفر، حَضَر میں ہمیشہ اذان کی خدمت اِن کے سُپرد ہوتی۔ حضور ﷺ کے بُت پَرست: بتوں کے پجاری۔ صلہ: بدلہ، انعام۔ وِصال کے بعد مدینہ طیبہ میں رہنا اور حضور ﷺ کی جگہ کو خالی دیکھنا مشکل ہوگیا؛ اِس لیے ارادہ کیا کہ اپنی زندگی کے جَے دن ہیں جِہاد میں گزار دُوں؛ اِس لیے جہاد میں شِرکت کی نیت سے چل دیے، ایک عرصے تک مدینہ منورہ لوٹ کر نہیں آئے، ایک مرتبہ حضورﷺ کی خواب میں زیارت کی، حضورﷺ نے فرمایا: ’’بلال! یہ کیا ظلم ہے،ہمارے پاس کبھی نہیں آتے‘‘؟ تو آنکھ کھلنے پر مدینہ طیبہ حاضر ہوئے، حضرت حسن حسین رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا نے اذان کی فرمائش کی، لاڈلوں کی درخواست ایسی نہیں تھی کہ اِنکار کی گنجائش ہوتی، اذان کہنا شروع کی اور مدینے میں حضورﷺ کے زمانے کی اذان کانوں میں پڑ کرکُہرام مَچ گیا، عورتیں تک روتی ہوئی گھر سے نکل پڑیں۔ چند روز قیام کے بعد واپس ہوئے، او ر ۲۰ھ کے قریب ’’دِمَشق‘‘ میں وِصال ہوا۔ (اُسدُ الغابۃ۱؍۲۰۶ تا ۲۰۹) (۵)حضرت ابوذرغِفاری کااسلام حضرت ابوذرغِفاری ص مشہورصحابی ہیں، جوبعد میں بڑے زاہدوں اور بڑے عُلما میں سے ہوئے، حضرت علیکَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ کاارشاد ہے کہ: ’’ابوذر ایسے علم کو حاصل کیے ہوئے ہیں جس سے لوگ عاجز ہیں؛ مگراُنھوں نے اُس کومحفوظ کررکھا ہے‘‘۔ جب اُن کو حضورِ اقدسﷺ کی نُبوَّت کی پہلے پہل خبرپہنچی تواُنھوں نے اپنے بھائی کو حالات کی تحقیق کے واسطے مکہ بھیجا، کہ جوشخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ: میرے پاس وحی آتی ہے اورآسمان کی خبریں آتی ہیں، اُس کے حالات معلوم کریں اوراُس کے کلام کو غور سے سنے، وہ مکۂ مکرمہ آئے اور حالات معلوم کرنے کے بعد اپنے بھائی سے جاکر کہا کہ: ’’مَیں نے اُن کواچھی عادتوں اورعمدہ اخلاق کا حکم کرتے دیکھا، اورایک ایساکلام سنا