فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تمہید بِسْمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّيْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْكَرِیْمِ، حَامِدًا وَّمُصَلِّیًّا وَّمُسَلِّماً. اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِيْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ الصّٰلِحٰتُ،وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمَوْجُوْدَاتِ، الَّذِيْ قَالَ:’’أَنَاسَیِّدُ وُلْدِاٰدَمَ وَلَافَخْرَ‘‘، وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَأَصْحَابِہٖ وَأَتْبَاعِہٖ إِلٰی یَوْمِ الْحَشْرِ. أَمَّابَعْدُ! حائل: رُکاوٹ۔ پنج شنبہ: جمعرات۔ تعمیل: عمل کرنا۔ مَبادا: کہیں ایسا نہ ہو۔ لَیت ولعل: آج کل۔ خُوئے بد را بہانۂ بِسیار: بُری عادت کے لیے بہت سے بہانے ہیں۔اِمروز وفَردا: آج کل۔ داعیہ: تقاضہ۔ اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ عَمَّ نَوَالُہٗ کے لُطف وانعام اور محض اُس کے فضل واحسان اور اُس کے نیک بندوں کی شفقَت اور توجُّہات سے اِس ناکارہ ونابکار سیاہ کار کے قلم سے فضائل کے سلسلے میں متعدِّد رسائل لکھے گئے، جو نظام الدین کے تبلیغی سلسلے کے نصاب میںبھی داخل ہیں، اور احباب کے سینکڑوں خطوط سے اُن کا بہت زیادہ نافع ہونا معلوم ہوتارہا۔ اِس ناکارہ کا اِس میں کوئی دخل نہیں، اوّلاً محض اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا انعام، ثانیاً اُس پاک رسول کے کلام کی برکت جس کے تراجِم اُن رسائل میں پیش کیے گئے، ثالثاً: اُن اللہ والوںکی برکتیں جن کے ارشادات سے یہ رسائل لکھے گئے ہیں۔ یہ اللہ کا محض لطف وکرم ہے کہ اِن ساری برکات میں اِس ناپاک کی گندگی حائل نہ ہوئی۔ اَللّٰہُمَّ لَكَ الْحَمْدُ کُلُّہٗ، وَلَكَ الشُّکْرُ کُلُّہٗ، اَللّٰہُمَّ لَا أُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَیْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِكَ. اِس سلسلہ کا سب سے پہلا رسالہ ۱۳۴۸ھ میں ’’فضائل قرآن‘‘ کے نام سے حضرت اقدس شاہ محمد یٰسین صاحب نگینویؒ(حاشیہ:حضرت شاہ صاحب کی ولادت ربیع الاول ۱۳۸۵ھ میں ہوئی، اِس لحاظ سے ۷۵؍ سال کی عمر میں وصال ہوا۔ نہایت بزرگ، نہایت متواضع، نہایت کم گو، صاحبِ کشف اور صاحبِ تصرُّفات بزرگ تھے۔ اِس ناکارہ پر بہت ہی شفقَت فرماتے تھے۔ حضرت ممدوح مدرسے کے سالانہ جلسوں میں نہایت اہتمام سے تشریف لایا کرتے، اور جلسے سے فراغ پر کئی کئی دن اِس ناکارہ کے پاس قِیام فرماتے، اِہتمام سے اِس ناکارہ کے حدیث کے سبق میں بھی تشریف فرماہوتے۔ اِس نابکار کی عادت اسباق میں ڈبیہ بٹوہ ساتھ لے جانے کی بھی تھی، ایک مرتبہ مرحوم نے یوں فرمایا کہ: مَیں پان کھانے کو تومنع نہیں کرتا؛ لیکن حدیثِ پاک کے سبق میں نہ کھایا کریں، اُس وقت سے آج تک تقریباً ۳۵؍ سال ہوچکے ہیں، بعض مرتبہ ۵-۶ گھنٹے مسلسل بھی سبق ہوا؛ لیکن سبق میں کبھی پان کا خَیال بھی نہیں آیا۔ یہ حضرت ہی کا تصرُّف تھا، اِس کے عِلاوہ اَور بہت سے واقعات حضرت کی کرامتوں کے سننے میں آئے ہیں۔ رَفَعَ اللہُ دَرَجَاتَہٗ.) خلیفہ قُطبِ عالَم شیخ المشائخ حضرت گنگوہی قُدِّسَ سِرُّہٗ کی تعمیلِ حکم میں لکھا گیا تھا، جیسا کہ اُس رسالے کے شروع میں تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب نَوَّرَاللہُ مَرْقَدَہٗ کا وِصال ۳۰؍ شوال ۶۰ ھ شب پنج شنبہ میںہوا تھا۔ نَوَّرَاللہُ مَرْقَدَہٗ وَأَعْلَی اللہُ مَرَاتِبَہٗ. حضرتؒ نے اپنے وِصال کے وقت اپنے اجل خلیفہ مولانا الحاج عبدالعزیز دعا جو کے ذریعے یہ پیام اور وصیت بھیجی کہ، جس طرح فضائلِ قرآن لکھا گیا