فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
نہ کر، خَچر اور سامان سب کچھ لے لے، یہی تیرا مقصود ہے، مجھے قتل نہ کر، اُس نے نہ مانا اور قََسم کھالی کہ: پہلے تجھے ماروں گا، پھریہ سب کچھ لوںگا، اُس نے بہت عاجزی کی؛ مگر اُس ظالم نے ایک بھی نہ مانی، قُلی نے کہا: اچھا! مجھے دو رکعت آخری نمازپڑھنے دے، اُس نے قَبول کیا، اور ہنس کر کہا: جلدی سے پڑھ لے، اِن مُردوں نے بھی یہی درخواست کی تھی؛ مگراِن کی نماز نے کچھ بھی کام نہ دیا، اُس قلی نے نماز شروع کی، الحمد شریف پڑھ کرسورۃ بھی یاد نہ آئی، اُدھر وہ ظالم کھڑا تقاضہ کررہاتھا کہ: جلدی ختم کر،بے اختیار اُس کی زبان پر یہ آیت جاری ہوئی: ﴿أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ﴾ الاٰیۃ یہ پڑھ رہاتھا اور رو رہا تھا کہ ایک سوار نُمودار ہوا، جس کے سر پر چمکتا ہوا خَود (لوہے کی ٹوپی)تھا، اُس نے نیزہ مار کر اُس ظالم کوہلاک کردیا، جس جگہ وہ ظالم مَر کر گِرا آگ کے شعلے اُس جگہ سے اُٹھنے لگے، یہ نمازی بے اختیار سجدے میں گرگیا، اللہ کاشکر ادا کیا، نماز کے بعد اُس سوار کی طرف دوڑا، اُس سے پوچھا کہ: خداکے واسطے اِتنا بتادو کہ: تم کون ہو؟کیسے آئے؟ اُس نے کہا کہ: مَیں ﴿أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ﴾ کاغلام ہوں، اب تم مامون ہو جہاں چاہے جاؤ، یہ کہہ کرچلا گیا۔ (نُزہَۃُ المجالس) درحقیقت نماز ایسی ہی بڑی دولت ہے کہ اللہ کی رَضاکے عَلاوہ دنیا کے مَصائب سے بھی اکثر نجات کاسبب ہوتی ہے، اورسکونِ قلب توحاصل ہوتا ہی ہے۔ ابنِ سِیرین ؒکہتے ہیں کہ: اگر مجھے جنت میں جانے میں اور دو رکعت نمازپڑھنے میں اختیار دے دیاجائے، تو مَیں دو رکعت کو ہی اختیار کروںگا؛ اِس لیے کہ جنت میں جانا میری اپنی خوشی کے واسطے ہے، اور دو رکعت نمازمیں میرے مالک کی رَضا ہے۔(نزہۃ المجالس) حضورﷺ کاارشاد ہے: ’’بڑا قابلِ رَشک ہے وہ مسلمان جو ہلکاپھُلکا ہو (یعنی اہل وعَیال کازیادہ بوجھ نہ ہو)، نمازسے وا فِر حصہ اُسے ملا ہو، روزی صرف گزارے کے قابل ہوجس پر صبرکرکے عمر گزار دے، اللہ کی عبادت اچھی طرح کرتا ہو، گُمنامی میں پڑاہو، جلدی سے مرجاوے، نہ میراث زیادہ ہو، نہ رونے والے زیادہ ہوں‘‘۔ (جامع الصغیر) ایک حدیث میں آیا ہے کہ: ’’اپنے گھر میں نماز کثرت سے پڑھاکرو، گھرکی خیرمیں اِضافہ ہوگا‘‘۔(جامع الصغیر) (۷) عَنْ أَبِيْ مُسْلِمِ التَّغْلَبِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلیٰ أَبِيْ أُمَامَۃَ -وَهُوَ فِيْ الْمَسْجِدِ- فَقُلْتُ: یَا أَبَا أُمَامَۃَ! إِنَّ رَجُلًا حَدَّثَنِيْ مِنْكَ أَنَّكَ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللہِﷺ یَقُوْلُ: مَنْ تَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوْءَ:غَسَلَ یَدَیْہِ وَوَجْهَہُ وَمَسَحَ عَلیٰ رَأْسِہِ وَأُذُنَیْہِ، ثُمَّ قَامَ إِلیٰ صَلَاۃٍ مَفْرُوْضَۃٍ، غَفَرَ اللہُ لَہٗ فِيْ ذٰلِكَ الْیَوْمِ مَا مَشَتْ إِلَیْہِ رِجْلَاہُ، وَقَبَضَتْ عَلَیْہِ یَدَاہُ، وَسَمِعَتْ إِلَیْہِ أُذُنَاہُ، وَنَظَرَتْ إِلَیْہِ عَیْنَاہُ، وَحَدَّثَ بِہٖ نَفْسُہُ مِنْ سُوْءٍ؛ فَقَالَ: وَاللہِ لَقَدْ سَمِعْتُہٗ مِنَ النَّبِيِّﷺ مِرَاراً. (رواہ أحمد، والغالب علیٰ سندہ الحسن