فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
دَس دفعہ پڑھنے سے دل نہ اُکتائے تو بیس دفعہ سے اُکتا جائے گا، بیس سے نہ سہی چالیس سے اُکتا وے گا، بہر حال اُکتاوے گا، پھر اُکتاوے گا؛ مگر کلامِ پاک کا رکوع یاد کیجیے، دو سو مرتبہ پڑھیے، چار سو مرتبہ پڑھیے، عمر بھر پڑھتے رہیے، کبھی نہ اُکتاوے گا، اگر کوئی عارِض پیش آجائے تو وہ خود عارضی ہے اور جلد زائل ہوجانے والا، جتنی کثرت کیجیے اُتنی ہی طَراوت اور لَذَّت میں اِضافہ ہوگا، وغیرہ وغیرہ؛ یہ اُمور ایسے ہیں کہ اگر کسی کے کلام میں اِن میں سے ایک بھی پایا جاوے خواہ پورے طور سے نہ ہو، تو اُس پر اِفتخار کیا جاتا ہے، پھر جب کہ کسی کلام میں یہ سب کے سب اُمور عَلیٰ وَجْہِ الْکَمَال پائے جاتے ہوں تو اُس سے کتنا اِفتخار ہوگا! اِس کے بعد ایک لمحہ ہمیں اپنی حالت پر بھی غور کرنا ہے، ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جن کو اپنے حافظِ قرآن ہونے پر فخر ہے؟ یاہماری نگاہ میں کسی کا حافظِ قرآن ہونا باعثِ شرف ہے؟ ہماری شرافت، ہماراافتخار، اونچی اونچی ڈگریوں سے، بڑے بڑے اَلقاب سے، دُنیوی جاہ وجَلال اور مرنے کے بعد چھوٹ جانے والے مال ومَتاع سے ہے۔ فَإِلَی اللہِ المُشْتَکیٰ. (۲۱) عَن أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! أَوصِنِي، قَالَ:عَلَیكَ بِتَقوَی اللہِ؛ فَإِنَّہٗ رَأْسُ الأَمرِ کُلِّہٖ، قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! زِدْنِيْ، قَالَ: عَلَیكَ بِتِلَاوَۃِ القُراٰنِ؛ فَإنَّہٗ نُورٌ لَّكَ فِي الأَرضِ وَذُخرٌ لَكَ فِي السَّمَاءِ. (رواہ ابن حبان في صحیحہ في حدیث طویل) ترجَمہ: حضرت ابوذَرص کہتے ہیں کہ: مَیں نے حضورﷺسے درخواست کی کہ: مجھے کچھ وَصِیَّت فرمائیں، حضورﷺ نے فرمایا: تقویٰ کا اہتمام کرو، کہ تمام اُمور کی جڑ ہے، مَیں نے عرض کیا کہ: اِس کے ساتھ کچھ اَور بھی ارشاد فرماویں، تو حضورﷺنے فرمایا کہ: تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرو، کہ دنیا میں یہ نور ہے اور آخرت میں ذَخیرہ۔ مَعصِیت: گناہ۔ ضِیق: تنگی۔ ضَرب المَثَلیں: وہ جملہ جو مثال کے طور پر مشہور ہو۔ مُتَسلِّط: قبضہ کرنے والا۔ نَصائِح: نصیحتوں۔ حِجاب: رُکاوَٹ۔ بِتَرس از آہِ مَظلُوماں کہ ہَنگامِ دُعا کَردَن ء اِجابت از درِ حق بہرِ اِستقبال مِی آیَد: مظلوموں کی آہ سے ڈر؛ اِس لیے کہ دعا کرنے کے وقت قبولیت اللہ کے دروازے سے استقبال کے لیے آتی ہے۔ مُنقسِم: تقسیم۔ فُضول گوئی: زیادہ بولنے۔ مَعاش: روزی۔ مُنقطِع: ختم۔ مَبادا: کہیں ایسا نہ ہوکہ۔ تحقیر: ناقدری۔ حرف گِیری: عیب نکالنے۔ فائدہ:تقویٰ حقیقتاً تمام اُمور کی جڑ ہے، جس دل میں اللہ کا ڈر پیدا ہوجاوے اُس سے پھر کوئی بھی مَعصِیت نہیں ہوتی، اور نہ پھر اُس کو کسی قسم کی تنگی پیش آتی ہے، ﴿وَمَن یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجاً، وَّیَرزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ﴾: (اور جو شخص تقویٰ حاصل کرے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کے لیے ہر ضِیق میں کوئی راستہ نکال دیتے ہیں، اور اِس طرح اُس کو روزی پہنچاتے ہیں جس کا اُس کوگمان بھی نہیں ہوتا)۔ تلاوت کا نور ہونا پہلی روایات سے بھی معلوم ہوچکا۔ شرحِ احیاء میں ’’معرفتِ ابونُعیم‘‘ سے نقل کیا ہے کہ: حضرت باسطؒ نے حضورِاقدس ﷺکا یہ ارشاد ذکر کیاکہ: جن گھروں میں کلامِ پاک کی تلاوت کی جاتی ہے وہ مکانات