فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کی قِیامت میں اللہ کے یہاں پیشی نہ ہو، اُس وقت نہ کوئی پردہ درمیان میں حائل ہوگا نہ ترجَمان (وَکیل وغیرہ)، دائیں طرف دیکھے گا تو اپنے اعمال کا اَنبار ہوگا، بائیں طرف دیکھے گا تب یہی مَنظر ہوگا، جس قِسم کے بھی اَچھے یا بُرے اَعمال کیے ہیں وہ سب ساتھ ہوںگے، جہنَّم کی آگ سامنے ہوگی؛ اِس لیے جہاں تک ممکن ہو صدقے سے جہنَّم کی آگ کو دَفع کرو خواہ کھجور کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (مسلم،کتاب الزکاۃ،باب الحث علی الصدقۃ،۱؍۳۲۶حدیث:۱۰۱۶) ایک حدیث میں آیا ہے کہ: قِیامت میںسب سے اوَّل یہ سوال ہوگا کہ: ہم نے تجھے بدن کی صِحَّت عطا کی اور ٹھنڈا پانی پینے کو دیا، (یعنی اِن چیزوں کا کیا حق ادا کیا؟)۔(ترمذی، ابواب التفسیر،سورۃ الہکم التکاثر،۲؍۱۷۳حدیث:۳۳۵۸) دوسری حدیث میں ہے کہ: اُس وقت تک آدمی حساب کے میدان سے نہ ہٹے گا جب تک پانچ چیزوں کا سوال نہ ہوجائے: (۱)عمر کس کام میں خرچ کی؟ (۲)جوانی (کی قُوَّت) کس مَشغلے میں صَرف کی؟ (۳)مال کس طریقے سے کمایا؟ اور(۴) کس طریقے سے خرچ کیا؟ (یعنی کمائی اور خرچ کے طریقے جائز تھے یا ناجائز؟) (۵)جو کچھ علم حاصل کیا (خواہ کسی درجے کا ہو)اُس میں کیا عمل کیا؟(یعنی جومسائل معلوم تھے اُن پر عمل کیا یانہیں؟)۔(ترمذی،ابواب صفۃ القیامۃ،باب ماجاء فی شأن الحساب والقصاص، ۲؍۶۷ حدیث: ۲۴۱۶) (۴)عَن ابنِ مَسعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَقِیتُ إِبرَاهِیمَ لَیلَۃً أُسْرِيَ بِي، فَقَالَ: یَامُحَمَّدُ! اِقْرَأْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلَامَ، وَاَخبِرْهُم أَنَّ الجَنَّۃَ طَیِّبَۃُ التُّربَۃِ، عُذْبَۃُ المَاءِ، وَأَنَّهَا قَیعَانُ، وَأَنَّ غِرَاسَهَا: سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَ لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ. (رواہ الترمذي والطبراني في الصغیر والأوسط، وزاد: لَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ، وقال الترمذي: حسن غریب من هذا الوجہ؛ ورواہ الطبراني أیضا بإسناد رواہ من حدیث سلمان الفارسي، وعن ابن عباس مرفوعا: ’’مَن قَالَ: سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَ لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ غُرِسَ لَہٗ بِکُلِّ وَاحِدٍ مِنهُنَّ شَجَرَۃً فِي الْجَنَّۃِ‘‘. رواہ الطبراني وإسنادہ حسن، لابأس بہ في المتابعات. وعن جابر مرفوعا:’’مَنْ قَالَ: ’’سُبحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمدِہٖ‘‘ غُرِسَتْ لَہٗ نَخْلَۃٌ فِي الجَنَّۃِ‘‘. رواہ الترمذي وحسنہ، والنسائي؛ إلا أنہ قال: شجرۃ، وابن حبان فيصحیحہ، والحاکم في الموضعین بإسنادین، قال فيأحدهما: علیٰ شرط مسلم، وفي الاٰخر: علیٰ شرط البخاري، وذکرہ في الجامع الصغیربروایۃ الترمذي، وابن حبان، والحاکم ورقم لہ بالصحۃ. ’’وَعَن أَبِي هُرَیرَۃَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِہٖ وَهُوَ یَغرِسُ‘‘ الحدیث. رواہ ابن ماجہ بإسناد حسن، والحاکم وقال: صحیح الإسناد؛ کذا في الترغیب. وعزاہ في الجامع إلیٰ ابن ماجہ والحاکم، ورقم لہ بالصحۃ. قلت: وفي الباب من حدیث أبي أیوب مرفوعا رواہ أحمد بإسناد حسن، وابن أبي الدنیا، وابن حبان في صحیحہ، ورواہ ابن أبي الدنیا والطبراني من حدیث ابن عمر أیضا مرفوعاً مختصراً، إلا أن في حدیثهما الحوقلۃ فقط؛ کما في الترغیب. قلت: وذکر السیوطي في الدر حدیث ابن عباس مرفوعا بلفظ حدیث ابن مسعود، وقال: أخرجہ ابن مردویہ، وذکر أیضا حدیث ابن مسعود، وقال: أخرجہ الترمذي وحسنہ، والطبراني وابن مردویہ. قلت: وذکرہ في الجامع الصغیر بروایۃ الطبراني ورقم لہ بالصحۃ، وذکر في مجمع الزوائد عدۃ روایات في معنیٰ هذا الحدیث) ترجَمہ:حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: شبِ معراج میں جب میری ملاقات حضرت ابراہیم ں سے ہوئی تو اُنھوں نے فرمایا کہ: اپنی اُمَّت کو میرا سلام کہہ دینا، اور یہ کہنا کہ: جنت کی نہایت عمدہ پاکیزہ مٹی ہے اور بہترین پانی؛ لیکن وہ بالکل چَٹیَل میدان ہے، اور اُس کے پودے (درخت) سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ ہیں، (جتنے کسی کا دل چاہے درخت