فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
جائے خود نہ کھانا،چناںچہ اُنھوں نے ایسا ہی کیا، ساتھ میں سب شریک رہے جیسے کھا رہے ہو۔ صبح کو حضرت ثابتص جب حضور ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ: ’’رات کا تمھارا اپنے مہمان کے ساتھ برتاؤ حقتَعَالیٰ شَانُہٗ کوبہت ہی پسند آیا‘‘۔ (دُرِّمنثور،۶؍ ۲۸۹) (۳)ایک صحابی کازکوۃ میں اونٹ دینا نفیس: اچھی۔ قاصِد: بھیجاہوا۔ سَعادت: خوش قسمتی۔ تصرُّف: خرچ، استعمال۔ مَرحَمت: عنایت۔ حضرت اُبَی بن کَعب ص فرماتے ہیں کہ: مجھے ایک مرتبہ حضورِاقدس ﷺنے زکوۃ کامال وُصول کرنے کے لیے بھیجا، مَیں ایک صاحب کے پاس گیا، اور اُن سے اُن کے مال کی تفصیل معلوم کی، تواُن پر ایک اونٹ کا بچہ ایک سالہ واجب تھا، مَیں نے اُن سے اُس کامُطالَبہ کیا، وہ فرمانے لگے: ایک سال کابچہ نہ دودھ کے کام کا،نہ سواری کے کام کا، اُنھوں نے ایک نفیس، عمدہ، جوان اونٹنی سامنے کی،کہ یہ لے جاؤ، مَیں نے کہا کہ: مَیں تو اِس کونہیں لے سکتا، کہ مجھے عمدہ مال لینے کاحکم نہیں؛ البتہ اگرتم یہی دیناچاہتے ہو تو حضورِاقدس ﷺسفر میں ہیں، اورآج کا پَڑاؤ فلاں جگہ تمھارے قریب ہی ہے، حضورﷺکی خدمت میں جاکر پیش کردو، اگر منظور فرمالیا تو مجھے انکار نہیں؛ ورنہ مَیں معذور ہوں، وہ اُس اونٹنی کولے کرمیرے ساتھ ہولیے، اور حضورِاقدس ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ: یارسولَ اللہ! میرے پاس آپ کے قاصِد زکوۃ کامال لینے آئے تھے، اور خداکی قَسم! مجھے آج تک یہ سَعادت نصیب نہیں ہوئی کہ رسولُ اللہ یا اُن کے قاصد نے میرے مال میں کبھی تصرُّف فرمایا ہو؛اِس لیے مَیں نے اپنا سارا مال سامنے کردیا، اِنھوں نے فرمایا کہ: اِس میں ایک سالہ اونٹ کابچہ زکوۃ کاواجب ہے، حضور! ایک سال کے بچے سے نہ تودودھ کاہی نفع ہے نہ سواری کا؛ اِس لیے مَیں نے ایک عمدہ جوان اونٹنی پیش کی تھی، جس کواِنھوں نے قبول نہیں فرمایا؛ اِس لیے مَیں خود لے کر حاضر ہوا ہوں، حضورﷺنے فرمایا کہ: ’’تم پرواجب تووہی ہے جو اِنھوں نے بتلائی؛ مگر تم اپنی طرف سے اِس سے زیادہ اور عمدہ مال دو توقَبول ہے، اللہ تمھیں اِس کا اَجر مَرحَمت فرمائے، اُنھوں نے عرض کیا: یہ حاضر ہے، حضورﷺ نے قبول فرمالیا، اور برکت کی دعا فرمائی۔ (ابوداود، کتاب الزکوٰۃ، باب فی زکوٰۃ السائمہ، ۱؍ ۲۲۳) اکثر وبیشتر: زیادہ تر۔ مُتوسِّط: درمیانی۔ فائدہ: یہ زکوۃ کے مال کا مَنظرہے، آج بھی اسلام کے بہت سے دعوے دار ہیں، اور حضور ﷺ کی محبت کادَم بھی بھرتے ہیں؛ لیکن زکوۃ کے اداکرنے میں زیادتی کا تو کیا ذِکر ہے، پوری مقدار بھی اداکرناموت ہے۔ جو اُونچے طبقے والے، زیادہ مال والے کہلاتے ہیں، اُن کے یہاں تو اکثر وبیشتر اِس کاذکر ہی نہیں؛