فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کے راستے میں کاٹے گئے، پھر تُوکہے کہ: سچ ہے، میرے ہی راستے میں کاٹے گئے‘‘، حضرت سعدص نے آمین کہی۔ دوسرے دن لڑائی ہوئی، اور دونوں حضرات کی دعائیں اُسی طرح قَبول ہوئی جس طرح مانگی تھیں۔ (تاریخ خمیس، ۱؍ ۴۴۲) سعدص کہتے ہیں کہ: عبداللہ بن جحش ص کی دعا میری دعاسے بہتر تھی، مَیںنے شام کو دیکھا کہ اُن کے ناک، کان ایک تاگے میں پُروئے ہوئے ہیں۔ اُحُد کی لڑائی میں اُن کی تلوار بھی ٹوٹ گئی تھی، حضورﷺ نے اُن کوایک ٹہنی عطافرمائی جو اُن کے ہاتھ میں جاکرتلواربن گئی، اور عرصے تک بعد میں رہی، اور دوسو دینارکوفروخت ہوئی۔( دینار سونے کے ایک سکے کانام ہے)۔(اِصابہ) فائدہ: اِس قصے میں جہاں ایک جانب کمالِ بہادری ہے کہ بہادر دشمن سے مقابلے کی تمنا ہے، وہاں دوسری جانب کمالِ عشق بھی، کہ محبوب کے راستے میں بدن کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی تمنا کرے، اورآخر میں جب وہ پوچھے کہ: یہ سب کیوں ہوا؟ تو مَیں عرض کروں: تمھارے لیے۔ رہے گاکوئی تو تیغِ سِتم کے یادگاروں میں مِرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں (۲)اُحُدکی لڑائی میں حضرت علی ص کی بہادری جَتّھے: جماعت۔ اَوجھل: پوشیدہ۔ مُسرَّت: خوشی۔ جواںمَردی: بہادری۔ کمالِ اِتحاد: کامل محبت۔ بھِڑ جانا: لڑپڑنا۔ جَمگَھٹے:بھیڑ۔ غزوۂ اُحُد میں مسلمانوں کوکچھ شکست ہوئی تھی، جس کی بڑی وجہ نبیٔ اکرم ﷺ کے ایک ارشاد پر عمل نہ کرناتھی، جس کاذکر باب؍۱ قصہ؍۲ میں گزرچکا، اُس وقت مسلمان چاروں طرف سے کُفَّار کے بیچ میں آگئے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ شہید بھی ہوئے، اورکچھ بھاگے بھی، نبیٔ اکرم ﷺ بھی کُفَّار کے ایک جَتّھے کے بیچ میں آگئے، اور کُفَّار نے یہ مشہورکردیاتھا کہ حضورﷺ شہید ہوگئے، صحابہ اِس خبرسے بہت پریشان حال تھے، اوراِسی وجہ سے بہت سے بھاگے بھی، اور اِدھر اُدھر مُتفرِّق ہوگئے، حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ فرماتے ہیں کہ: جب کُفَّار نے مسلمانوں کو گھیر لیا، اور حضورِ اقدس ﷺ میری نظرسے اَوجھل ہوگئے، تو مَیں نے حضورﷺ کو اوَّل زندوں میںتلاش کیا، نہ پایا، پھر شُہَدا میں جاکرتلاش کیا، وہاںبھی نہ پایا، تومَیں نے اپنے دل میں کہا کہ: ایساتوہو نہیں ہوسکتا کہ حضورﷺ لڑائی سے بھاگ جائیں، بظاہر حق تَعَالیٰ شَانُہٗ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہم پر ناراض ہوئے؛ اِس لیے اپنے پاک رسول ﷺ کوآسمان پر اُٹھا لیا؛ اِس لیے اب اِس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ