فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت طاؤسؒ سے بھی یہی نقل کیاگیاہے۔(تفسیر طبری۷؍۴۵۱،حدیث:۲۰۷۷۵) (۵) لَہُ دَعْوَۃُ الْحَقِّ، وَالَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِن دُونِہٖ لَایَسْتَجِیْبُونَ لَہُم بِشَيْئٍ إِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ إِلَی الْمَائِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ہُوَ بِبَالِغِہِ، وَمَا دُعَائُ الْکٰفِرِیْنَ إِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ. [الرعد، ع:۲] ترجَمہ:سچا پُکارنا اُسی کے لیے خاص ہے، اور خدا کے سِوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ اُن کی درخواست کو اِس سے زیادہ منظور نہیں کرسکتے جتنا پانی اُس شخص کی درخواست کو منظور کرتا ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے(اور اُس پانی کو اپنی طرف بلائے)؛ تاکہ وہ اُس کے منھ تک آجائے، اور وہ (پانی اُڑکر)اُس کے منھ تک آنے والا کسی طرح بھی نہیں، اور کافروں کی درخواست محض بے اَثر ہے۔ فائدہ:حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ فرماتے ہیں کہ: دَعْوَۃُ الحَقِّ سے مراد توحید یعنی: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُہے۔(تفسیر طبری۷؍۴۶۴حدیث:۲۰۲۸۱) حضرت ابن عباس ص سے بھی یہی مَنقُول ہے کہ: دَعوَۃُ الْحَقِّ سے شہادت لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُکی مراد ہے۔(تفسیر طبری۷؍۳۶۴حدیث:۲۰۲۸۵) اِسی طرح اِن کے عِلاوہ دوسرے حضرات سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے۔ (۶) قُلْ یٰأَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا إِلیٰ کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ، أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللہَ، وَلَانُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا، وَلَایَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللہِ، فَإِن تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْہَدُوْا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ. [اٰل عمران، ع:۷] ترجَمہ: (اے محمدﷺ!)آپ فرمادیجیے کہ: اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسے کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان (مُسلَّم ہونے میں) برابر ہے، وہ یہ کہ: بجُز اللہ تعالیٰ کے ہم کسی اَور کی عبادت نہ کریں، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو رب قرار نہ دے خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر، پھر اِس کے بعد بھی وہ اِعراض کریں تو تم لوگ کہہ دو کہ: تم اِس کے گواہ رہو کہ ہم لوگ تو مسلمان ہیں۔ مُسلَّم: تسلیم کیا ہوا۔ اِعراض: منھ پھیرنا۔ صَراحَت: صاف لفظوں میں۔صادِر: عمل ہونا۔مُکافات: بدلہ۔زائل: ختم۔ فائدہ:آیتِ شریفہ کامضمون خود ہی صاف ہے، کہ کلمے سے مراد توحید اور کلمۂ طیبہ ہے۔ حضرت ابوالعالیہؒ اورمجاہدؒ سے صَراحَت کے ساتھ مَنقُول ہے کہ: کلمے سے مراد لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُہے۔(تفسیر طبری۳؍۳۰۲حدیث:۷۱۹۵) (۷) کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ، وَلَوْ آمَنَ أَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْراً لَّہُمْ، مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُونَ. [اٰل عمران، ع:۱۲] ترجَمہ: (اے امتِ محمدﷺ!) تم لوگ (سب اہلِ مذاہب سے)بہترین جماعت ہو، کہ وہ جماعت لوگوں کو نفع پہنچانے کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم لوگ نیک کاموں کو بتلاتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو؛ اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آئے تو اُن کے لیے بہتر تھا، اُن میںسے بعض تو مسلمان ہیں (جو ایمان لے آئے)؛لیکن اکثر حصہ اُن میں سے کافر ہیں۔ فائدہ:حضرت ابنِ عباسص فرماتے ہیں کہ: ﴿تَأْمُرُوْنَ بِالمَعْرُوْفِ﴾(اچھی بات کا حکم کرتے ہو)کا مطلب یہ ہے کہ: اِس کاحکم کرتے ہو کہ وہ لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کی گواہی