فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہوںگے، عذاب میں شریک ہوںگے۔ (ابوداؤد،کتاب الملاحم،باب الأمر والنہي،ص:۵۹۶،حدیث:۴۳۳۹) اِس مضمون کو مَیں اپنے رسالہ ’’تبلیغ‘‘ میں مُفصَّل لکھ چکا ہوں، جس کا دل چاہے اُس کو دیکھے۔ یہاں ایک ضروری چیز یہ بھی قابلِ لحاظ ہے کہ جہاں دِین داروں کا گنہ گاروں کو قَطعی جہنَّمی سمجھ لینا مُہلِک ہے، وہاں جُہَلا کا ہر شخص کو مُقتَدا اور بڑا بنالینا خواہ کتنے ہی کُفرِیات بکے، سِمِّ قاتِل اور نہایت مُہلِک ہے۔ نبیٔ اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ: جو شخص کسی بدعتی کی تعظیم کرتا ہے وہ اسلام کے مُنہدِم کرنے پر اِعانت کرتا ہے۔(طبرانی،۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۶۷۷۲) بہت سی احادیث میں آیا ہے کہ: آخر زمانے میں دَجَّال، مَکَّار ، کَذَّاب پیدا ہوںگے، جو ایسی احادیث تم کو سناویںگے جو تم نے نہ سنی ہوںگی، ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو گمراہ کریں اور فتنے میں ڈال دیں۔(مقدمۂ مسلم،باب النہي عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فیہا،۱؍۹حدیث:۷) (۱۵) عَن ابنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: وَالَّذِي نَفسِي بِیَدِہٖ لَو جِيئَ بِالسَّمٰوَاتِ وَالأَرضِ وَمَن فِیهِنَّ وَمَابَینَهُنَّ وَمَاتَحتَهُنَّ، فَوُضِعْنَ فِي کَفَّۃِ المِیزَانِ وَوُضِعَتْ شَهَادَۃُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ فِي الکَفَّۃِ الأُخْریٰ لَرَجَحَتْ بِهِنَّ. (أخرجہ الطبراني، کذا في الدر، وهکذا في مجمع الزوائد، وزاد في أولہ: لَقِّنُوا مَوتَاکُمْ شَهَادَۃَ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، فَمَنْ قَالَهَا عِندَ مَوتِہٖ وَجَبَتْ لَہُ الجَنَّۃُ، قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللہِ! فَمَنْ قَالَهَا فِي صِحَّتِہٖ؟ قَالَ: تِلْكَ أَوجَبُ وَأَوجَبُ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفسِيْ بِیَدِہٖ. الحدیث. قال: رواہ الطبراني ورجالہ ثقات؛ إلا أن ابن أبي طلحۃ لم یسمع من ابن عباس) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺکا ارشادہے کہ: اُس پاک ذات کی قَسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تمام آسمان وزمین اور جو لوگ اُن کے درمیان میں ہیں وہ سب، اور جو چیزیں اُن کے درمیان میں ہیں وہ سب کچھ، اور جو کچھ اُن کو نیچے ہے وہ سب کا سب ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے، اور لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا اقرار دوسری جانب ہو، تو وہی تول میں بڑھ جائے گا۔ فائدہ: اِس قِسم کا مضمون بہت سی مختلف روایتوں میں ذکر کیا گیا ہے، اِس میں شک نہیں کہ اللہ کے پاک نام کے برابر کوئی بھی چیز نہیں، بدقِسمتی اور محرومی ہے اُن لوگوں کی جو اِس کو ہلکا سمجھتے ہیں۔ البتہ اِس میں وزن اخلاص سے پیدا ہوتا ہے، جس قدر اخلاص ہوگا اُتنا ہی وزنی یہ پاک نام ہوسکتاہے، اِسی اِخلاص کے پیدا کرنے کے واسطے مشائخِ صوفیا کی جوتیاںسیدھی کرنا پڑتی ہے۔ ایک حدیث میں اِس ارشادِ خداوندی سے پہلے ایک اَور مضمون مذکور ہے، وہ یہ کہ: حضور ﷺنے یہ ارشاد فرمایا کہ: مَیِّت کو لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ تَلقِین کیا کرو، جو شخص مرتے وقت اِس پاک کلمے کو کہتا ہے اُس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے، صحابہ ث نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! اگر کوئی تندرستی ہی میں کہے؟ حضورﷺنے فرمایا: پھر تو اَور بھی زیادہ جنت کو واجب کرنے والا ہے، اِس کے بعد یہ قَسَمِیہ مضمون ارشاد فرمایا جو اوپر ذکرکیاگیا۔(طبرانی،۱۲؍۲۵۴حدیث:۱۳۰۲۴)