فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہے، یہ صفت حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ بالخصوص سیدُ الانبیاء عَلَیْہِ أَفْضَلُ الصَّلَاۃِ وَالسَّلَامُ ہی کو عطا فرمائی تھی؛ اِس لیے اِس باب میں صحابۂ کرام ث کے عِلاوہ اَور دیگر حضرات کے واقعات بھی ذکر کیے جائیںگے۔ (۱)فتوے کاکام کرنے والی جماعت کی فہرست مُنہمِک: مشغول۔ حسبِ ذَیل: نیچے دی ہوئی تفصیل کے مطابق۔ اگرچہ صحابۂ کرام ث جہاد اوراعلائے کلمۃُ اللہ کی مشغولی کے باوجود سب ہی علمی مشغلے میں ہر وقت مُنہمِک تھے، اور ہر شخص ہر وقت جوکچھ حاصل کر لیتا تھا اُس کوپھیلانا، پہنچانا، یہی اُس کا مَشغَلہ تھا؛ لیکن ایک جماعت فتوے کے ساتھ مخصوص تھی جو حضورِ اقدس ﷺ کے زمانے میں بھی فتویٰ کاکام کرتی تھی، وہ حضرات حسبِ ذَیل ہیں: حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، اُبی بن کَعب، حضرت عبداللہ بن مسعود، مُعاذ بن جَبل، عَمَّار بن یاسِر، حُذیفہ، سَلمان فارسی، زیدبن ثابت، ابوموسیٰ، ابوالدَّرداء؛ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِیْنَ۔(تلقیح فہوم اہل الاثر) فائدہ: یہ اُن حضرات کے کمالِ علم کی بات ہے کہ حضور ﷺ کی موجودگی میں یہ لوگ اہلِ فتویٰ شمار کیے جاتے تھے۔ (۲)حضرت ابوبکرصدیق کامجموعۂ احادیث کوجَلا دینا شَغَف: بے انتہا رغبت۔ بے دَھڑک: بے خوف۔ حاضر باش: حاضر رہنے والے۔ وِصال: انتقال۔ عُبور: خوب مَہارت۔ حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ: میرے باپ حضرت ابوبکر صدیق ص نے پانچ سو اَحادیث کا ایک ذخیرہ جمع کیاتھا، ایک رات مَیں نے دیکھا کہ وہ نہایت بے چین ہیں، کَروَٹیں بدل رہے ہیں، مجھے یہ حالت دیکھ کر بے چینی ہوئی، دریافت کیا کہ: کوئی تکلیف ہے یاکوئی فکر کی بات سننے میں آئی ہے؟ غرض تمام رات اِسی بے چینی میں گزری، اور صبح کوفرمایا کہ: وہ احادیث جو مَیں نے تیرے پاس رکھوا رکھی ہے، اُٹھا لا، مَیں لے کرآئی، آپص نے اُن کو جَلا دیا، مَیں نے پوچھا کہ: کیوں جَلادیا؟ ارشاد فرمایا کہ: مجھے اندیشہ ہوا کہیں ایسا نہ ہو کہ مَیں مرجاؤں اوریہ میرے پاس ہوں، اِن میں دوسروں کی سنی ہوئی روایتیں بھی ہیں کہ مَیں نے معتبر سمجھاہو اور وہ واقع میں معتبر نہ ہوں، اور اُس کی روایت میں کوئی گڑ بڑ ہو جس کا وَبال مجھ پر ہو۔(تذکرۃ ُالحُفَّاظ) فائدہ: حضرت ابوبکرصدیق ص کایہ توعِلمی کمال اورشَغَفتھا کہ اُنھوں نے پانچ سو احادیث کا ایک رِسالہ جمع کیا، اور اِس کے بعد اُس کو جَلا دینا یہ کمالِ احتیاط تھا۔ اکابرِ صحابہ ث کاحدیث کے بارے میں اِحتیاط کایہی حال تھا، اِسی وجہ سے اکثر صحابہ ث سے روایتیں بہت کم نقل کی جاتی ہیں۔ ہم لوگوں کو اِس