فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
غالباًوہ عادت ماخوذ ہے جو ہمارے دیار میں مُتعارَف ہے، کہ ختمِ قرآن شریف کے بعد مُفلِحُونَ تک پڑھاجاتا ہے؛ مگر اب لوگ اِسی کو مستقل ادب سمجھتے ہیں، اور پھر پورا کرنے کا اہتمام نہیں کرتے؛ حالاںکہ ایسا نہیں؛ بلکہ دَر اصل معاً دوسرا قرآن شریف شروع کرنا بظاہر مقصود ہے، جس کو پورا بھی کرنا چاہیے۔ ’’شرحِ اِحیاء‘‘ میں اور علامہ سیوطیؒ نے ’’اِتقان‘‘ میں بہ روایتِ ’’دَارمی‘‘ نقل کیا ہے کہ: حضورِ اکرم ﷺجب ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ پڑھا کرتے توسورۂ بقرہ سے مُفلِحُونَ تک ساتھ ہی پڑھتے، اور اِس کے بعد ختمِ قرآن کی دعا فرماتے تھے۔ (۶) عَن أَبِي مُوسَی الأَشعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: تَعَاهَدُوا القُراٰنَ، فَوَالَّذِي نَفسِي بِیَدِہٖ لَهُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیاً مِنَ الإِبِلِ فِي عُقُلِهَا. (رواہ البخاري ومسلم) ترجَمہ: ابوموسیٰ اشعری ص نے حضورِ اکرم ﷺسے نقل کیا ہے کہ: قرآن شریف کی خبر گِیری کیا کرو، قسم ہے اُس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ، قرآن پاک جلد نکل جانے والاہے سینوں سے بہ نسبت اونٹ کے اپنی رسِّیوں سے۔ گِیری: دیکھ بھال۔ کوڑھی: کوڑھ کا مریض۔ اِعانت:مدد۔ فائدہ:یعنی آدمی اگر جانور کی حفاظت سے غافل ہوجاوے اور وہ رسِّی سے نکل جاوے تو بھاگ جاوے گا، اِسی طرح کلامِ پاک کی اگر حفاظت نہ کی جاوے تو وہ بھی یاد نہیں رہے گا اور بھول جاوے گا۔ اور اصل بات یہ ہے کہ، کلامُ اللہ شریف کا حِفظ یاد ہوجانا درحقیقت یہ خودقرآن شریف کا ایک کھُلا ہوا معجزہ ہے؛ ورنہ اِس سے آدھی، تہائی مقدار کی کتاب بھی یاد ہونا مشکل ہی نہیں؛ بلکہ قریب بہ محال ہے، اِسی وجہ سے حق تَعَالیٰ شَانُہٗنے اِس کے یاد ہوجانے کو سورۂ قمر میں بہ طورِ احسان کے ذکر فرمایا، اور بار بار اِس پر تنبیہ فرمائی: ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾: کہ ہم نے کلامِ پاک کو حفظ کرنے کے لیے سَہل کررکھا ہے، کوئی ہے حفظ کرنے والا؟ صاحبِ ’’جَلالین‘‘ نے لکھا ہے کہ: استفہام اِس آیت میں امر کے معنیٰ میں ہے۔ تو جس چیز کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ بار بار تاکید سے فرمارہے ہوں، اُس کو ہم مسلمان ’’لَغو‘‘ اور ’’حَماقت‘‘ اور ’’بے کار اِضاعتِ وقت‘‘ سے تعبیر کرتے ہوں، اِس حَماقت کے بعد پھر بھی ہماری تباہی کے لیے کسی اَور چیز کے انتظار کی ضرورت باقی ہے؟ تعجب کی بات ہے کہ حضرت عُزَیرں اگر اپنی یاد سے تورات لکھادیں تو اُس کی وجہ سے اللہ کے بیٹے پکارے جاویں، اورمسلمانوں کے لیے اللہجَلَّ شَانُہٗ نے اِس لُطف واحسان کو عام فرمارکھا ہے تو اُس کی یہ قدردانی کی جاوے!! ﴿فَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَيَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ﴾. بِالجُملہ یہ محض حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا لُطف وانعام ہے کہ یہ یاد ہوجاتا ہے، اِس کے بعد اگر کسی شخص کی طرف سے بے توجُّہی پائی جاتی ہے تو اُس سے بھُلا