فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کیا ہوتی ہے!۔ (۳) حضرت عُمیر کاشوقِ جہاد مَرحَمَت: عنایت۔ حضرت عُمیرص آبِی اللَّحْم کے غلام اورکم عمر بچے تھے، جہاد میں شرکت کاشوق اُس وقت ہر بڑے چھوٹے کی جان تھا، خیبر کی لڑائی میں شرکت کی خواہش کی، اُن کے سرداروں نے بھی حضورِ اقدس ﷺکی بارگاہ میں سفارش کی کہ اجازت فرمادی جاوے، چناںچہ حضورﷺنے اجازت فرمادی اور ایک تلوار مَرحَمَت فرمائی جو گَلے میں لٹکالی؛ مگر تلواربڑی تھی اور قَد چھوٹا تھا؛ اِس لیے وہ زمین پر گھِسٹتی جاتی تھی، اِسی حال میںخیبر کی لڑائی میں شرکت کی، چوں کہ بچے بھی تھے اور غلام بھی؛ اِس لیے غنیمت کاپورا حصہ توملا نہیں؛ البتہ بطورِ عطاکچھ سامان حصے میں آیا۔ (ابوداؤد، باب المرأۃ والعبدالخ، ص ۳۷۴) فائدہ: اِن جیسے حضرات کو یہ بھی معلوم تھا کہ غنیمت میں ہمارا پورا حصہ بھی نہیں، اِس کے باوجود پھر یہ شوق کہ دوسرے حضرات سے سفارشیںکرائی جاتی تھیں، اِس کی وجہ دِینی جذبہ اور اللہ تعالیٰ اوراُس کے سچے رسول ﷺکے وعدوں پراِطمینان کے سِوا اَور کیا ہوسکتی ہے؟۔ (۴)حضرت عُمیر کابدر کی لڑائی میں چھُپنا مُمانَعت: انکار۔ تحمُّل: برداشت۔ تَسموں: جوتوں کی پٹی۔ حضرت عُمیربن اَبی وَقاص ص ایک نوعُمر صحابی ہیں، شروع ہی میں مسلمان ہوگئے تھے، سعد بن اَبی وَقاص صمشہور صحابی کے بھائی ہیں۔ سعدص کہتے ہیں کہ: مَیں نے اپنے بھائی عُمیرص کو بدر کی لڑائی کے وقت دیکھا، کہ لشکر کی روانگی کی تیاری ہورہی تھی اور وہ اِدھر اُدھر چھُپتے پھر رہے تھے کہ کوئی دیکھے نہیں، مجھے یہ بات دیکھ کرتعجب ہوا، مَیں نے اُن سے پوچھا کہ: کیاہوا؟ چھُپتے کیوں پھر رہے ہو؟کہنے لگے: مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں حضورِ اقدس ﷺمجھے نہ دیکھ لیں، اوربچہ سمجھ کر جانے کی مُمانَعت کردیں کہ پھر نہ جاسکوںگا، اورمجھے تمنا ہے کہ لڑائی میں ضرور شریک ہوں، کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی کسی طرح شہادت نصیب فرمائیں!، آخرجب لشکرپیش ہوا تو جو خطرہ تھا وہ پیش آیا، اور حضورِ اقدس ﷺنے اُن کے کم عمر ہونے کی وجہ سے انکار فرما دیا، اور جو خطرہ تھا وہ سامنے آگیا؛ مگر شوق کا غلبہ تھا، تحمُّل نہ کرسکے اوررونے لگے، حضورِ اقدس ﷺکوشوق کا اور رونے کا حال معلوم ہوا تو اجازت عطافرمادی، لڑائی میں شریک ہوئے، اور دوسری تمنابھی پوری ہوئی کہ اِس لڑائی میں شہید ہوئے۔ اِن کے بھائی سعدص کہتے ہیں کہ: اُن کے چھوٹے ہونے اور تلوار کے بڑے ہونے کی وجہ سے مَیں