فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
چکا، سوچ تو آخر! تُوایک قطرۂ مَنی ہے، دیکھ! کافر لوگ مسلمانوں پرکھینچے ہوئے آرہے ہیں، تجھے کیا ہوا کہ جنت کو پسند نہیںکرتا؟ اگر تُو قتل نہ ہوا تو ویسے بھی آخر مرے گاہی‘‘، اِس کے بعد گھوڑے سے اُترے، اُن کے چچا زاد بھائی ایک گوشت کا ٹکڑا لائے کہ ذرا سا کھالو، کمر سیدھی کرلو، کئی دن سے کچھ نہیں کھایا، اُنھوں نے لے لیا، اِتنے میںایک جانب سے ہَلّے کی آواز آئی، اُس کوپھینک دیا اور تلوار لے کرجماعت میں گھس گئے، اورشہید ہونے تک تلوار چَلاتے رہے۔(تاریخ خَمیس، ۲؍ ۷۰، ۷۱) فائدہ: صحابہ ث کی پوری زندگی کایہی نمونہ ہے، اُن کاہرہرقصہ دنیا کی بے ثُباتی اور آخرت کے شوق کاسبق دیتا ہے، صحابۂ کرام ث کاپوچھناہی کیا! تابعین پربھی یہی رنگ چڑھاہوا تھا۔ ایک قصے پر اِس باب کوختم کرتا ہوں جو دوسرے رنگ کا ہے، دشمن سے مقابلے کے نمونے تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں، اب حکومت کے سامنے کا منظربھی دیکھ لیجیے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’أَفْضَلُ الْجِہَادِ کَلِمَۃُ حَقٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ‘‘: بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے۔ (۱۲) حضرت سعید بن جبیر اور حَجَّاج کی گفتگو بیزار: ناراض،پریشان۔ بُغض: نفرت۔ عَلَّامُ الغُیوب: غیب کوجاننے والا۔ مُحافِظ: نگران۔ دِق: تنگ۔ حِلم: نرمی، برداشت۔ تفریق: جُدائی۔ حق گوئی: حق بات کہنے۔ حَجَّاج کا ظلم وسِتم دنیا میںمشہور ہے، گو اُس زمانے کے بادشاہ باوجود ظلم وستم کے دین کی اِشاعت کاکام بھی کرتے رہتے تھے؛ لیکن پھربھی دِین دار اور عادل بادشاہوں کے لحاظ سے وہ بدترین شمار ہوتے تھے، اور اِس وجہ سے لوگ اُن سے بیزارتھے۔ سعیدبن جُبیرؒ نے بھی ابن الاشْعَث کے ساتھ مل کر حَجاج کا مقابلہ کیا، حَجاج عبدالملک بن مروان کی طرف سے حاکم تھا، سعید بن جبیر ؒ مشہورتابعی ہے، اور بڑے عُلَما میں سے ہیں، حکومت اور بالخُصوص حَجاج کو اُن سے بُغض وعَداوت تھی، اور چوںکہ مقابلہ کیاتھا؛ اِس لیے عَداوت کاہونابھی ضروری تھا، مقابلے میں حَجاج اُن کو گرفتار نہ کرسکا، یہ شکست کے بعد چھپ کر مکۂ مکرمہ چلے گئے، حکومت نے اپنے ایک خاص آدمی کو مکہ کاحاکم بنایا، اور پہلے حاکم کو اپنے پاس بلالیا، اِس نئے حاکم نے جاکر خطبہ پڑھا، جس کے اخیر میں عبدالملک بن مروان بادشاہ کا یہ حکم بھی سنایا کہ: جو شخص سعید بن جبیرؒ کوٹھکانہ دے اُس کی خیر نہیں، اِس کے بعد اُس حاکم نے خود اپنی طرف سے بھی قَسم کھائی کہ: جس کے گھر میں وہ ملے گا اُس کوقتل کیا جائے گا، اور اُس کے گھر کو نیز اُس کے پڑوسیوں کے گھرکو ڈھاؤںگا۔ غرض بڑی دِقَّت سے مکہ کے حاکم نے اُن کو گرفتار کرکے حَجاج کے پاس بھیج دیا، اُس کوغصہ نکالنے اور اُن کوقتل کرنے کاموقع مل گیا، سامنے بلایا اور پوچھا: