فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
(کنزالعمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کو کثرت سے پڑھنے کی برکتیں مرنے سے پہلے بھی بَسااَوقات نَزع کے وقت سے محسوس ہوجاتی ہیں، اور بعض اللہ کے بندوں کو اِس سے بھی پہلے ظاہر ہوجاتی ہیں۔ ابُوالعبَّاسؒ کہتے ہیں کہ: مَیں اپنے شہر’’اَشبِیلہ‘‘ میں بیمار پڑا ہوا تھا، مَیں نے دیکھا کہ: بہت سے پرند بڑے بڑے اور مختلف رنگ کے سفید، سُرخ،سَبز ہیں؛ جو ایک ہی دَفعہ سب کے سب پَر سَمیٹ لیتے ہیں اور ایک ہی مرتبہ کھول دیتے ہیں، اور بہت سے آدمی ہیں جن کے ہاتھ میں بڑے بڑے طَباق ڈَھکے ہوئے ہیں جن کے اندر کچھ رکھا ہوا ہے، مَیں اِس سب کو دیکھ کر یہ سمجھا کہ یہ موت کے تحفے ہیں، مَیں جلدی جلدی کلمۂ طیبہ پڑھنے لگا، اُن میں سے ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ: تمھارا وقت ابھی نہیں آیا، ایک اَور مومن کے لیے تحفہ ہے جس کا وقت آگیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا جب اِنتِقال ہونے لگا تو فرمایا: مجھے بٹھادو، لوگوں نے بٹھادیا، پھر فرمایا: (یا اللہ!)تُونے مجھے بہت سے کاموں کاحکم فرمایا تھا مجھ سے اُس میں کوتاہی ہوئی، تُو نے مجھے بہت سی باتوں سے منع فرمایا مجھ سے اُس میں نافرمائی ہوئی، تین مرتبہ یہی کہتے رہے، اِس کے بعد فرمایا: لیکن لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، یہ فرماکر ایک جانب غور سے دیکھنے لگے، کسی نے پوچھا: کیا دیکھتے ہو؟ فرمایا: کچھ سبز چیزیں ہیں کہ نہ وہ آدمی ہیں نہ جن، اِس کے بعد اِنتقال فرمایا۔ (تاریخ ابن عساکر۴۸؍۱۶۸، ۱۶۹) زُبیدہؒ کو کسی نے خواب میں دیکھا، اُس سے پوچھا: کیا گزری؟ اُس نے کہا کہ: اِن چار کلموں کی بہ دولت میری مغفرت ہوگئی: لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ أَفنِي بِهَا عُمْرِي، لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ أَدخُلُ بِهَا قَبرِيْ، لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ أَخلُو بِهَا وَحدِي، لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ أَلقِي بِهَا رَبِّي.(لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُکے ساتھ اپنی عمر کو ختم کروںگی، اورلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہی کو قبر میں لے کر جاؤںگی؛ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُہی کے ساتھ تنہائی کا وقت گزاروںگی اور لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُہی کو لے کر اپنے رب کے پاس جاؤںگی۔)(احیاء العلوم،بیان منامات المشایخ،۴؍۵۰۸) (۳۳) عَن أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! أَوصِنِي، قَالَ: إذَا عَمِلتَ سَیِّئَۃً فَأَتْبِعْهَا حَسَنَۃً تَمْحُهَا، قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! أَمِنَ الحَسَنَاتِ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ؟ قَالَ: هِيَ أَفضَلُ الحَسَنَاتِ. (رواہ أحمد، وفي مجمع الزوائد: رواہ أحمد ورجالہ ثقات؛ إلا أن شمر بن عطیۃ حدثہ عن أشیاخہ ولم یسم أحدا منهم. قال السیوطي في الدر: أخرجہ أیضا ابن مردویہ، والبیهقي في الأسماء والصفات. قلت: وأخرجہ الحاکم بلفظ: ’’یَا أَبَاذَرٍّ! اِتَّقِ اللہَ حَیثُ کُنتَ، وَاتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الحَسَنَۃَ تَمحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ‘‘، وقال: صحیح علیٰ شرطهما، وأقرہ علیہ الذهبي؛ وذکرہ السیوطي في الجامع مختصرا، ورقم لہ بالصحۃ. ترجَمہ: حضرت ابوذرغِفاری صنے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! مجھے کوئی وَصیت فرما دیجیے، ارشاد ہوا کہ: جب کوئی بُرائی سَرزَد ہوجائے تو کَفَّارے کے طور پر فوراً کوئی نیک کام کرلیا کرو؛ (تاکہ بُرائی کی نَحوست دُھل جائے)،مَیں نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ پڑھنا