فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
قاری ہوںگے۔ بعض مشائخ سے ’’اِحیاء‘‘ میں نقل کیا ہے کہ: بندہ ایک سورۃکلامِ پاک کی شروع کرتا ہے تو ملائکہ اُس کے لیے رحمت کی دُعا کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ فارغ ہو، اور دوسرا شخص ایک سورۃ شروع کرتا ہے تو ملائکہ اُس کے ختم تک اُس پر لعنت کرتے ہیں۔ بعض عُلما سے منقول ہے کہ: آدمی تلاوت کرتا ہے اور خود اپنے اوپر لعنت کرتا ہے، اور اُس کو خبر بھی نہیں ہوتی، قرآن شریف میںپڑھتا ہے: ﴿أَلَا لَعنَۃُ اللہِ عَلَی الظّٰلِمِینَ﴾ اور خود ظالم ہونے کی وجہ سے اِس وعید میں داخل ہوتا ہے، اِسی طرح پڑھتا ہے: ﴿لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الکٰذِبِیْنَ﴾ اور خود جھوٹا ہونے کی وجہ سے اِس کا مُستحق ہوتا ہے۔ عامر بن وَاثِلہص کہتے ہیں کہ: حضرت عمرصنے نافع بن عبدُالحارث صکو مکۂ مکرمہ کا ناظِم بنا رکھا تھا، اُن سے ایک مرتبہ دریافت فرمایا کہ: جنگلات کا ناظم کس کو مُقرَّر کررکھا ہے؟ اُنھوں نے عرض کیا کہ: ابنِ اَبزیٰ کو، حضرت عمرصنے پوچھا کہ: ابنِ ابزیٰ کون شخص ہے؟ اُنھوں نے عرض کیا کہ: ہمارا ایک غلام ہے، حضرت عمرصنے اعتراضاً فرمایا کہ: غلام کو امیر کیوں بنادیا؟ اُنھوں نے کہا کہ: کتابُ اللہ کا پڑھنے والا ہے۔ حضرت عمرصنے اِس حدیث کو نقل کیا ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗاِس کلام کی بہ دولت بہت سے لوگوں کے رفعِ درجات فرماتے ہیں، اوربہت سوں کوپَست کرتے ہیں۔ قرآن مجید کی سفارش (۸) عَنْ عَبدِالرَّحمٰنِ بنِ عَوفٍ عَنِ النَّبِيِّﷺقَالَ: ثَلَاثٌ تَحتَ العَرشِ یَومَ القِیَامَۃِ: اَلقُراٰنُ یُحَاجُّ الْعِبَادَ، لَہٗ ظَهْرٌ وَبَطْنٌ؛ وَالأَمَانَۃُ؛ وَالرَّحِمُ تُنَادِي: أَلَا مَنْ وَصَلَنِي وَصَلَہُ اللہُ، وَمَن قَطَعَنِي قَطَعَہُ اللہُ. (رواہ في شرح السنۃ) ترجَمہ: عبدالرحمن بن عوف صحضور ِاقدس ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ: تین چیزیں قیامت کے دن عرش کے نیچے ہوںگی: ایک کلامِ پاک، کہ جھگڑے گا بندوں سے، قرآنِ پاک کے لیے ظاہر ہے اور باطن؛ دوسری چیز امانت ہے؛ اور تیسری رشتہ داری، جو پکارے گی کہ: جس شخص نے مجھ کو جوڑا اللہ اُس کو اپنی رحمت سے مِلادے، اور جس نے مجھ کو توڑا اللہ اپنی رحمت سے اُس کو جُدا کردے۔ مَرحَمَت: عنایت۔ حق تَلفی: حق کو ضائع۔ مُقابِل: مقابلہ کرنے والا۔ مَفَر: چھُٹکارا۔ حسبِ استعداد: صلاحیت کے طابق۔ رَسائی: پہنچ۔بدونِ معرفتِ لغاتِ عرب: لغاتِ عرب کو پہچانے بغیر۔ لَب کُشائی کرے: بات کرے۔ فی الواقع: حقیقتاً۔ مَعرفَت: پہچان۔ پیش رَو: آگے چلنے والا۔ اِشتقاق: ایک کلمہ سے دوسرا کلمہ بنانا۔ مُشتَق: نکلا ہوا۔خِفا: پوشیدگی۔ سَراسَر: مُکمَّل۔ اِعجاز: کرشمہ۔ وجوہِ استدلال واِستنباط: دلیل دینے اور مسائل نکالنے کے طریقے۔ جُزئیات: چھوٹے چھوٹے اُمور، فروعات۔ کُلِّیات: پورے اُمور۔ مُجمَل: مُختصر۔ مَقُولہ: قول۔ مشکوۃِ نُبوَّت: نبوت کے چَراغ۔ مُستَفاد: حاصل کیے ہوئے۔ مُصِر: اَڑ جانے والا۔ قاصِر: عاجز۔ فائدہ:اِن چیزوں کے عرش کے نیچے ہونے سے مقصود اُن کا کمالِ قُرب ہے، یعنی حق سُبحَانَہٗ وَتَقَدُّس کے عالی دربار میں بہت ہی قریب ہوںگی۔ کلامُ اللہ