فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
جَمِیْعاً. (رواہ البخاري والترمذي) ترجَمہ:نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: اُس شخص کی مثال جو اللہ کی حُدود پر قائم ہے اور اُس شخص کی جو اللہ کی حُدود میں پڑنے والا ہے، اُس قوم کی سی ہے جو ایک جہاز میں بیٹھے ہوں، اور قُرعہ سے (مثلاً)جہاز کی منزلیں مقرر ہوگئی ہوں، کہ بعض لوگ جہاز کے اوپر کے حصے میں ہوں اور بعض لوگ نیچے (نَطَق)کے حصے میں ہوں، جب نیچے والوں کوپانی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ جہاز کے اوپر کے حصے پر آکر پانی لیتے ہیں، اگر وہ یہ خیال کرکے کہ ہمارے بار بار اوپر پانی کے لیے جانے سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی ہے؛ اِس لیے ہم اپنے ہی حصہ میں -یعنی جہاز کے نیچے حصہ میں- ایک سوراخ سمندر میں کھول لیں جس سے پانی یہاں ہی ملتا رہے، اوپر والوں کو ستانا نہ پڑے، ایسی صورت میں اگر اوپر والے اِن اَحمقوں کی اِس تجویز کو نہ روکیںگے، اور خیال کرلیںگے کہ: وہ جانیں اُن کا کام، ہمیں اُن سے کیا واسطہ؟ تو اِس صورت میں وہ جہاز غرق ہوجائے گا اور دونوں فَرِیق ہلاک ہوجائیںگے، اور اگر وہ اُن کو روک دیںگے تو دونوں فریق ڈوبنے سے بچ جائیںگے۔ صحابۂ کرامث نے حضورِاقدس ﷺ سے ایک مرتبہ دریافت کیاکہ: ہم لوگ ایسی حالت میں بھی تباہ وبرباد ہوسکتے ہیں جب کہ ہم میں صُلَحااور مُتَّقی لوگ موجود ہوں؟ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ہاں! جب خَباثَت غالب ہوجائے۔ اِس وقت مسلمانوں کی تباہی وبربادی کے ہر طرف گیت گائے جارہے ہیں اور اِس پر شور مچایا جارہا ہے، نئے نئے طریقے اُن کی اصلاح کے واسطے تجویز کیے جارہے ہیں؛ مگر کسی ’’روشن خیال‘‘(تعلیمِ جدید کے شیدائی)کی تو کیا کسی ’’تاریک خیال‘‘ (مولوی صاحب)کی بھی نظر اِس طرف نہیں جاتی ہے کہ حقیقی طبیب اور شفیق مُربِّی نے کیا مرض تشخیص فرمایا اور کیا علاج بتلایاہے؟ اور اُس پر کس درجہ عمل کیا جارہا ہے؟ کیا اِس ظلم کی کچھ انتہا ہے کہ جو سببِ مرض ہے، جس سے مرض پیدا ہوا ہے وہی علاج تجویز کیا جارہا ہے، (کہ دین کی تَرقی کے لیے دِین واسبابِ دِین سے بے توجُّہی کی جارہی ہے، اپنی ذاتی رایوں پر عمل کیا جارہا ہے)تو یہ مریض کَل کی جگہ آج ہلاک نہ ہوگا تو کیا ہوگا؟ مِیرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب ء اُسی عَطّار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں (۳) عَنْ اِبْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ:أَوَّلُ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلیٰ بَنِيْ إِسْرَائِیْلَ أَنَّہٗ کَانَ الرَّجُلُ یَلْقَی الرَّجُلَ، فَیَقُوْلُ: یَا هٰذَا! اِتَّقِ اللہَ، وَدَعْ مَا تَصْنَعُ بِہٖ؛ فَإِنَّہٗ لَا یَحِلُّ لَكَ، ثُمَّ یَلْقَاہُ مِنَ الْغَدِ وَهُوَ عَلیٰ حَالِہٖ، فَلَایَمْنَعُہٗ ذٰلِكَ أَنْ یَّکُوْنَ أَکِیْلَہٗ وَشَرِیْبَہٗ وَقَعِیْدَہٗ؛ فَلَمَّا فَعَلُوْا ذٰلِكَ ضَرَبَ اللہُ قُلُوْبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ، ثُمَّ قَالَ: ﴿لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِيْ إِسْراَئِیْلَ﴾ إِلیٰ قَوْلِہٖ ﴿فَاسِقُوْنَ﴾، ثُمَّ قَالَ: کَلَّا، وَاللہِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَلَتَأْخُذُنَّ عَلیٰ یَدِ