فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تَلقِین: ہدایت۔ اِستِقلال: جمے رہنا،ثابت قدمی۔ سُرخ رُوئی: کامیابی۔ سُمَیہ بنت خَیَّاط رَضِيَ اللہُ عَنْہَا حضرت عَمَّار صکی والدہ تھیں، جن کاقصہ پہلے باب کے ساتویں نمبر پر گزر چکا ہے، یہ بھی اپنے لڑکے حضرت عَمَّار صاوراپنے خاوند حضرت یاسِرص کی طرح اسلام کی خاطر قِسم قِسم کی تکلیفیں اور مَشقَّتیں برداشت کرتی تھیں؛ مگر اسلام کی سچی محبت جودل میں گھر کر چکی تھی اُس میں ذرابھی فرق نہ آتاتھا، اُن کوگرمی کے سخت وقت دھوپ میں کنکریوں پر ڈالا جاتا تھا، اور لوہے کی زِرہ پہناکر دھوپ میں کھڑا کیا جاتا تھا؛ تاکہ دھوپ سے لوہا تپنے لگے اوراُس کی گرمی سے تکلیف میں زیادتی ہو، حضورِاقدس ﷺ کا اُدھر کوگزرہوتا توصبر کی تَلقِین فرماتے اور جنت کا وعدہ فرماتے۔ ایک مرتبہ حضرت سُمیہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کھڑی تھیںکہ ابوجہل کااُدھر کو گزر ہوا، بُرابھلا کہا اور غصے میں برچھا شرم گاہ پر مارا،جس کے زخم سے انتقال فرماگئیں۔اسلام کی خاطر سب سے پہلی شہادت اِنھیں کی ہوئی۔(اُسدُالغابۃ، ۵؍ ۴۸۱) فائدہ:عورتوں کا اِس قدر صبر،ہمَّت اور اِستِقلال قابلِ رشک ہے؛ لیکن بات یہ ہے کہ جب آدمی کے دل میں کوئی چیز گھر کرجاتی ہے تواُس کی ہربات سَہَل ہوجاتی ہے، اب بھی عشق کے بیسیوں قصے اِس قِسم کے سننے میں آتے ہیں کہ جان دے دی؛ مگر یہی جان دینا اگر اللہ کے راستے میں ہو، دِین کی خاطر ہوتودوسری زندگی میں -جومرنے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے- سُرخ رُوئی کاسبب ہے، اوراگر دنیاوی غرض سے ہو تو دنیا تو گئی تھی ہی، آخرت بھی برباد ہوئی۔ (۱۷)حضرت اسماء بنتِ ابی بکر رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کی زندگی اور تنگی جَفاکَشی: محنت مَشقَّت۔ ضَربُ المَثَل: کہاوَت کی طرح مشہور۔ لاد: اٹھانا۔ خبر گیری:دیکھ بھال۔ جاگیر: انعام۔ ناگَوار: ناپسند۔ گِراں: بھاری۔ خَلاصی: چھٹکارا۔ دَل: موٹا موٹا پیس۔ حضرت اسماء بنتِ ابی بکر رَضِيَ اللہُ عَنْہَا -حضرت ابوبکر صکی بیٹی اورعبداللہ بن زبیر ص کی والدہ اورحضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کی سوتیلی بہن- مشہور صحابیات میں ہیں، شروع ہی میں مسلمان ہوگئی تھیں، کہتے ہیں کہ: سترہ آدمیوں کے بعد یہ مسلمان ہوئی تھیں، ہجرت سے ستَّائیس سال پہلے پیدا ہوئیں، اورجب حضورِ اقدس ﷺ اورحضرت ابوبکر ص کاہجرت کے بعدمدینۂ طَیبہ پہنچ گئے تو حضرت زیدص وغیرہ کوبھیجا، کہ اِن دونوں حضرات کے اَہل وعَیال کولے آئیں، اُن کے ساتھ ہی حضرت اسماء رَضِيَ اللہُ عَنْہَا بھی چلی آئیں، جب ’’قُبا‘‘ میں پہنچیں توحضرت عبداللہ بن زبیر ص پیدا ہوئے، اور ہجرت کے بعد سب سے پہلی پیدائش اِن کی ہوئی۔ اُس زمانے کی عام غُربت، تنگ دَستی، فَقر وفاقہ مشہور ومعروف ہے، اور اِس کے ساتھ ہی اُس زمانے کی ہمت، جَفاکَشی ، بہادری،