فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ﴾، اور اِسی وجہ سے بظاہر جہاں قیامت کا ذکر آتا ہے ’’غَداً‘‘ کے ساتھ آتا ہے، جس کے معنیٰ ’’کَل آئندہ‘‘ کے ہیں؛ لیکن یہ سب بہ اعتبارِ اَغلب اور عام مؤمنین کے ہے؛ ورنہ کافرین کے لیے وارد ہوا ہے: ﴿فِيْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ﴾: ایسا دن جو پچاس ہزار برس کا ہوگا، اور خواصِّ مؤمنین کے لیے حسبِ حیثیت کم معلوم ہوگا؛ چناںچہ وارد ہوا ہے کہ: بعض مؤمنین کے لیے بہ منزلۂ دو رکعت فجر کے ہوگا۔ قرآن شریف کے پڑھنے کے فضائل -جیسا کہ بہت سی روایات میں وارد ہوئے ہیں- بے حد ہیں، اُس کے سننے کے فضائل بھی متعدَّد روایات میں آئے ہیں، اِس سے بڑھ کراَور کیا فضیلت ہوگی کہ سَیِّدُ المُرسَلینا کو ایسی مجلس میں شرکت کا حکم ہواہے، جیسا کہ اِس روایت سے معلوم ہوا۔ بعض عُلَما کا فتویٰ ہے کہ: قرآن پاک کا سننا پڑھنے سے بھی زیادہ افضل ہے؛ اِس لیے کہ قرآن پاک کا پڑھنا نفل ہے اور سننا فرض، اورفرض کادرجہ نفل سے بڑھاہوا ہوتا ہے۔ اِس حدیث سے ایک اَور مسئلہ بھی مُستنبَط ہوتا ہے جس میںعلماء کا اختلاف ہے، کہ وہ نادار جو صبر کرنے والا ہو، اپنے فَقروفاقہ کو کسی پر ظاہر نہ کرتا ہو، وہ افضل ہے، یا وہ مال دار جو شکر کرنے والا ہو، حقوق ادا کرنے والا ہو؟ اِس حدیث سے صابر حاجت مند کی افضلیت پر اِستدلال کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید سننے اورپڑھنے کی الگ الگ فضیلت (۳۰) عَنْ أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَنِ استَمَعَ إِلیٰ اٰیَۃٍ مِنْ کِتَابِ اللہِ کُتِبَتْ لَہٗ حَسَنَۃٌ مُضَاعَفَۃٌ، وَمَنْ تَلَاهَا کَانَتْ لَہٗ نُوراً یَوْمَ القِیَامَۃِ. (رواہ أحمد عن عُبادۃ بن مَسیرَۃ، واختلف في توثیقہ عن الحسن عن أبي هریرۃ، والجمهور علیٰ أن الحسن لم یسمع عن أبي هریرۃ) ترجَمہ: ابوہریرہ صنے حضورِ اقدس ﷺسے نقل کیا ہے کہ: جو شخص ایک آیت کلامُ اللہ کی سُنے اُس کے لیے دوچند نیکی لکھی جاتی ہے، اور جو تلاوت کرے اُس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا۔ مُؤیَّد: تائید کیا گیا۔ فائدہ:مُحدِّثین نے سند کے اعتبار سے اگرچہ اِس میںکلام کیا ہے؛ مگر مضمون بہت سی روایات سے مُؤیَّد ہے کہ کلامِ پاک کا سننا بھی بہت اجر رکھتا ہے، حتیٰ کہ بعض لوگوں نے اُس کو پڑھنے سے بھی افضل بتلایا ہے۔ ابن مسعودصکہتے ہیں کہ: ایک مرتبہ حضورﷺ منبرپر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ: مجھے قرآن شریف سُنا، مَیں نے عرض کیا کہ: حضور پر تو خود نازل ہی ہوا، حضور کو کیا سناؤں؟ ارشادہوا کہ: میرا دل چاہتا ہے کہ سنوں، اِس کے بعد اُنھوں نے سنایا تو حضورﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ ایک مرتبہ سالم مَولیٰ حُذیفہ کلام مجید پڑھ رہے تھے، کہ حضورِاکرم ﷺ دیر تک