فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
نقل کیا ہے کہ: اندھیرے پانچ ہیں اورپانچ ہی اُن کے لیے چراغ ہیں: دنیا کی محبت اندھیرا ہے جس کا چَراغ تقویٰ ہے، اور گناہ اندھیرا ہے جس کا چَراغ توبہ ہے، اور قبر اندھیرا ہے جس کا چَراغ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ ہے، اور آخرت اندھیرا ہے جس کا چَراغ نیک عمل ہے، اور پُل صراط اندھیرا ہے جس کا چَراغ یقین ہے۔(منبہات،باب الخماسی ص:۴۰،۴۱) رابعہ عَدوِیہؒ -مشہور ولِیَّہ ہیں- رات بھر نماز میں مشغول رہتِیں، صبحِ صادق کے بعد تھوڑی دیر سو رہتِیں، اورجب صبح کا چاندنا اچھی طرح ہوجاتا توگھبراکر اُٹھتِیں اور نفس کو مَلامَت کرتِیں کہ: کب تک سوتا رہے گا؟ عن قریب قبر کا زمانہ آنے والا ہے جس میں صور پھونکنے تک سونا ہی ہوگا، جب اِنتِقال کا وقت قریب ہوا تو ایک خادِمہ کو وَصِیَّت فرمائی کہ: یہ اَدنیٰ گُدڑی جس کو وہ تہجُّد کے وقت پہنا کرتی تھیں، اِس میں مجھے کفن دے دینا، اور کسی کو میرے مرنے کی خبر نہ کرنا؛ چناںچہ حسبِ وَصیَّت تَجہِیز وتکفین کردی گئی، بعد میں اُس خادمہ نے خواب میں دیکھا کہ: وہ نہایت عمدہ لباس پہنے ہوئے ہیں، اُس نے دریافت کیا کہ: وہ آپ کی گُدڑی کیا ہوئی جس میں کفن دیا گیا تھا؟ فرمایا کہ: لَپیٹ کر میرے اعمال کے ساتھ رکھ دی گئی، اُنھوں نے درخواست کی کہ: مجھے کوئی نصیحت فرمائیں، کہاکہ: اللہ کا ذکر جتنا بھی کرسکو کرتی رہو، کہ اِس کی وجہ سے تم قبر میں قابلِ رَشک بن جاؤگی۔(صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی۴؍۱۷) (۲۶) عَن عُثمَانَ قَالَ: إِنَّ رِجَالًا مِن أَصحَابِ النَّبِيِّﷺ حِینَ تُوُفِّيَ حَزِنُوْا عَلَیہِ، حَتّٰی کَادَ بَعضُهُم یُوَسوِسُ، قَالَ عُثمَانُ: وَکُنتُ مِنهُم، فَبَینَا أَنَا جَالِسٌ مَرَّ عَلَيَّ عُمَرُ وَسَلَّمَ، فَلَم أَشعُرْ بِہٖ، فَاشْتَکیٰ عُمَرُ إِلیٰ أَبِي بَکرٍ، ثُمَّ أَقبَلَا حَتّٰی سَلَّمَا عَلَيَّ جَمِیعاً، فَقَالَ أَبُوبَکرٍ: مَا حَمَلَكَ عَلیٰ أَن لَاتَرُدَّ عَلیٰ أَخِیكَ عُمَرَ سَلَامَہٗ؟ قُلتُ: مَا فَعَلتُ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلیٰ! وَاللہِ لَقَد فَعَلتَ، قَالَ: قُلتُ: وَاللہِ مَاشَعَرتُ أَنَّكَ مَرَرتَ وَلَاسَلَّمتَ، قَالَ أَبُوبَکرٍ: صَدَقَ عُثمَانُ، قَدَ شَغَلَكَ عَن ذٰلِكَ أَمرٌ، فَقُلتُ: أَجَلْ، قَالَ: مَا هُوَ؟ قُلتُ: تَوَفَّی اللہُ تَعَالیٰ نَبِیَّہٗﷺ قَبلَ أَن نَسْأَلَہٗ عَن نَجَاۃِ هٰذَا الأَمرِ، قَالَ أَبُوبَکرٍ: قَد سَأَلتُہٗ عَن ذٰلِكَ، فَقُمتُ إِلَیہِ وَقُلتُ لَہٗ: بِأَبِي أَنتَ وَأُمِّي، أَنتَ أَحَقُّ بِهَا، قَالَ أَبُوبَکرٍ: قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! مَا نَجَاۃُ هٰذَا الأَمرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَن قَبِلَ مِنِّي اَلکَلِمَۃُ الَّتِي عَرَضْتُ عَلیٰ عَمِّي فَرَدَّهَا فَهِيَ لَہٗ نَجَاۃٌ. (رواہ أحمد، کذا في المشکوۃ، وفي مجمع الزوائد: رواہ أحمد، والطبراني في الأوسط باختصار، وأبویعلیٰ بتمامہ، والبزار بنحوہ، وفیہ رجل لم یسم؛ لکن الزهري وثقہ وأبهمہ، اھ. قلت: وذکر في مجمع الزوائد لہ متابعات بألفاظ متقاربۃ) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ(رُوْحِيْ فِدَاہُ)کے وِصال کے وقت صحابۂ کرا مث کو اِس قدر سخت صدمہ تھا کہ بہت سے مختلف وَساوِس میں مُبتَلا ہوگئے، حضرت عثمان ص فرماتے ہیں کہ: مَیں بھی اُن ہی لوگوں میں تھا جو وَساوِس میں گھِرے ہوئے تھے، حضرت عمرص میرے پاس تشریف لائے، مجھے سلام کیا؛ مگر مجھے مُطلَق پتہ نہ چلا، اُنھوں نے حضرت ابوبکرص سے شکایت کی کہ: عثمان ص بھی بہ ظاہر خَفا ہیں، کہ مَیں نے سلام کیا اُنھوں نے جواب بھی نہ دیا، اِس کے بعد دونوں حضرات اِکَٹَّھے تشریف لائے اور سلام کیا، اور حضرت ابوبکرص نے دریافت فرمایا کہ: تم نے اپنے بھائی عمرص کے سلام کا بھی جواب نہ دیا،کیا بات ہے؟ مَیں نے عرض