فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
بلائے وہ اِس بشارت اور تعریف کا مستحق ہے، خواہ کسی طریق سے بلائے، مثلاً: انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ معجزہ وغیرہ سے بلاتے ہیں، اور عُلَما دلائل سے، مُجاہِدین تلوار سے، اور مُؤذِّنین اذان سے؛ غرض جو بھی کسی شخص کو دعوت اِلی الخیر کرے وہ اِس میں داخل ہے، خواہ اعمالِ ظاہِرہ کی طرف بلائے یا اعمالِ باطِنہ کی طرف، جیسا کہ مشائخِ صوفیہ مَعرفتُ اللہ کی طرف بُلاتے ہیں۔ (خازِن) مُفسِّرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ: ﴿قَالَ إِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ میں اِس طرف اشارہ ہے کہ: مسلمان ہونے کے ساتھ تَفاخُر بھی ہو، اُس کو اپنے لیے باعثِ عزت بھی سمجھتا ہو، اِس اسلامی اِمتیاز کو تَفاخُر کے ساتھ ذِکر بھی کرے۔ بعض مُفسِّرین نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ: مقصد یہ ہے کہ اِس وعظ، نصیحت، تبلیغ سے اپنے کو بہت بڑی ہَستی نہ کہنے لگے؛ بلکہ یہ کہے کہ: عام مسلمین میں سے ایک مسلمان مَیں بھی ہوں۔ (۲) وَذَکِّرْ فَإِنَّ الذِّکْریٰ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ. ترجَمہ: (اے محمد!) لوگوں کوسمجھاتے رہیے؛ کیوںکہ سمجھانا ایمان والوں کونفع دے گا۔ فائدہ:مُفسِّرین نے لکھا ہے کہ: اِس سے قرآنِ پاک کی آیات سناکر نصیحت فرمانا مقصود ہے، کہ وہ نفع رَساں ہے، مؤمنین کے لیے تو ظاہر ہے، کُفَّار کے لیے بھی اِس لحاظ سے کہ وہ إنْ شَاءَ اللہُ اِس کے ذریعے سے مؤمنین میں داخل ہوجائیںگے، اور آیت کے مِصداق میں شامل ہوںگے۔ ہمارے اِس زمانے میں وَعظ ونصیحت کا راستہ تقریباً بند ہوگیا ہے، وَعظ کا مقصد بِالعُمُوم شُستگِیٔ تقریر بن گیا ہے؛ تاکہ سننے والے تعریف کردیں؛ حالاںکہ نبیٔ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص تقریر وبلاغت اِس لیے سیکھے تاکہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے تو قِیامت کے دن اُس کی کوئی عبادت مقبول نہیں، نہ فرض نہ نفل۔ (۳) وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْهَا، لَانَسْئَلُكَ رِزْقاً، نَّحْنُ نَرْزُقُكَ، وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْویٰ. ترجَمہ: اے محمد(ﷺ)!اپنے مُتعلِّقین کو بھی نماز کا حکم کرتے رہیے اور خود بھی اُس کے پابند رہیے، ہم آپ سے مَعاش نہیں چاہتے، مَعاش تو آپ کو ہم دیںگے، اور بہتر انجام تو پرہیزگاری ہی کا ہے۔ فائدہ:مُتعدَّد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ: جب نبیٔ کریم ﷺ کو کسی کی تنگیٔ مَعاش کے رفع فرمانے کا فکر ہوتا تواُس کو نماز کی تاکید فرماتے، اور آیتِ بالا کوتلاوت فرماکر گویا اِس طرف اشارہ فرماتے کہ، وُسعتِ رزق کا وعدہ اہتمامِ نماز پر موقوف ہے۔ عُلَما نے لکھا ہے کہ: اِس آیتِ شریفہ میں نماز کے حکم کرنے کے ساتھ خود اُس پر اہتمام کرنے کا حکم اِس لیے ارشاد ہوا ہے کہ، یہ اَنفَع ہے کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ جس چیز کا دوسروں کو حکم کیا جاوے خود بھی اُس پر اہتمام کیا جاوے، کہ اِس سے دوسروں پر اثر بھی زیادہ ہوتا ہے