فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
فرمائیںگے، اور جو شخص ایسا نہ کرے اللہ تعالیٰ کاکوئی عہد اُس سے نہیں، چاہے اُس کی مغفرت فرمائیں چاہے عذاب دیں۔(ابوداؤد، ۔۔۔۔۔۔۔) کتنی بڑی فضیلت ہے نماز کی! کہ اِس کے اِہتِمام سے اللہ کے عہد میں اور ذمہ داری میں آدمی داخل ہوجاتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی معمولی ساحاکم یا دولت مند کسی شخص کواِطمینان دلادے، یاکسی مُطالبے کاذمہ دار ہوجائے، یا کسی قِسم کی ضَمانت کرلے تووہ کتنا مُطمَئِن اور خوش ہوتا ہے، اور اُس حاکم کا کس قدر اِحسان مَند اور گِرویدہ بن جاتا ہے، یہاں ایک معمولی عبادت پر -جس میں کچھ مَشقَّت بھی نہیں ہے- مالکُ المُلک ، دوجہاں کا بادشاہ عہد کرتاہے، پھربھی لوگ اِس چیزسے غَفلت اورلاپروائی کرتے ہیں، اِس میں کسی کا کیا نقصان ہے! اپنی ہی کم نصیبی اور اپناہی ضَرر ہے۔ (۱۱) عَنْ اِبْنِ سَلْمَانَ أَنَّ رَجُلًا مِّنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّﷺ حَدَّثَہٗ قَالَ: لَمَّا فَتَحْنَا خَیْبَراً أَخَرَجُوْا غَنَائِمَهُمْ مِنَ الْمَتَاعِ وَالسَّبِيِّ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَتَبَایَعُوْنَ غَنَائِمَهُمْ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللہِ! لَقَدْ رَبِحْتُ رِبْحاً مَّارَبِحَ الْیَوْمَ مِثْلَہٗ أَحَدٌ مِّنْ أَهْلِ الْوَادِيْ، قَالَ: وَیْحَكَ! وَمَارَبِحْتَ؟ قَالَ: مَازِلْتُ أَبِیْعُ وَأَبْتَاعُ حَتّیٰ رَبِحْتُ ثَلَاثَ مِائَۃِ أَوْقِیَۃٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: أَنَا أُنَبِّئُكَ بِخَیْرِ رَجُلٍ رَبِحَ؟ قَالَ: مَا هُوَ یَارَسُوْلَ اللہِ؟ قَالَ: رَکَعْتَیْنِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ. (أخرجہ أبوداود، وسکت عنہ المنذري) ترجَمہ: ایک صحابی ص فرماتے ہیں کہ: ہم لوگ لڑائی میں جب خیبر کوفتح کرچکے، تولوگوں نے اپنے مالِ غنیمت کو نکالا، جس میں مُتفَرِّق سامان تھا اور قیدی تھے، اور خریدوفروخت شروع ہوگئی، (کہ ہرشخص اپنی ضروریات خریدنے لگا دوسری زائد چیزیں فروخت کرنے لگا)، اِتنے میں ایک صحابیص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیاکہ: یارسولَ اللہ! مجھے آج کی اِس تجارت میں اِس قدر نفع ہوا کہ ساری جماعت میں سے کسی کوبھی اِتنا نفع نہیں مل سکا، حضورﷺ نے تعجب سے پوچھاکہ: کتنا کمایا؟ اُنھوں نے عرض کیا کہ: حضور! مَیں سامان خریدتا رہا اور بیچتا رہا جس میں تین سو اَوقِیہ چاندی نفع میں بچی، حضورﷺنے ارشاد فرمایا :مَیں تمھیں بہترین نفع کی چیزبتاؤں؟ اُنھوں نے عرض کیا: حضور! ضروربتائیں، ارشاد فرمایا کہ: فرض نماز کے بعد دو رکعت نفل۔ وَقعت: عظمت۔ حائل: رُکاوَٹ۔ کُنجیاں:چابیاں۔ شہنشاہ: بادشاہ۔ بَری: آزاد۔ پَروانہ: اجازت نامہ۔ طَمع: لالچ۔ مُتقی: پرہیزگار۔ تردُّد: شک۔ اِستِغناء: بے نیازی۔ عاجز: بے بس۔ وَرَم: سُوجَن۔ ضُعف: کمزوری۔ مُتَحیِّر: حیران۔ مُنہمِک: مشغول۔ رُوسیاہ: گنہگار۔ عَیال دار: بال بچے والا۔ تَقوِیَت: طاقت۔ فَرحَت: خوشی۔ نَشاط: چُستی، مزہ۔ کاہِلی: سُستی۔ رَفع: دُور۔ شرحِ صدر: …۔ مَضَرَّتوں: نقصانات۔ فائدہ: ایک اَوقِیَہ چالیس درہم کاہوتا ہے، اورایک درہم تقریباً چارآنے کا، تواِس حساب سے تین ہزار روپیہ ہوا، جس کے مقابلے میں دوجہاںکے بادشاہ کاارشاد ہے کہ: یہ کیانفع ہوا! حقیقی نفع وہ ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنے والا اورکبھی نہ ختم ہونے والا ہے۔ اگرحقیقت میں ہم لوگوں کے ایمان ایسے ہی ہوجائیں، اور دو رکعت نماز کے مقابلے میں تین ہزار روپئے کی وَقعت نہ رہے، تو پھر واقعی زندگی کاایک لُطف ہے، اورحق یہ ہے کہ نماز ہے ہی ایسی