فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہے کہ عوام کے کان اُن مسائل سے آشنا نہیں ہیں۔ عُلَما میں اختلاف رحمت ہے، اور بَدِیہی اَمر ہے، جب بھی کوئی عالم کسی شرعی دلیل سے کوئی فتویٰ دے گا دوسرے کے نزدیک اگر وہ حُجّت صحیح نہیں تو وہ شرعاً اختلاف کرنے پرمجبور ہے، اگر اختلاف نہ کرے تو مُداہِن اور عاصِی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ کام نہ کرنے کے لیے اِس لَچر اور پوچ عُذر کو حِیلہ بناتے ہیں؛ ورنہ ہمیشہ اَطِبَّاء میں اختلاف ہوتا ہے، وُکَلاء کی رائے میں اختلاف ہوتا ہے؛ مگر کوئی شخص علاج کرانا نہیں چھوڑتا، مُقدَّمہ لڑانے سے نہیں رُکتا، پھر کیا مصیبت ہے کہ دِینی اُمور میں اختلافِ عُلَما کو حِیلہ بنایا جاتا ہے؟ یقینا سچے عمل کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ جس عالِم کو وہ اچھا سمجھتا ہے، مُتَّبِعِ سُنَّت سمجھتا ہے، اُس کے قول پر عمل کرے، اور دوسروں پر لَغو حملوں اور طَعن وتَشنِیع سے باز رہے، جس شخص کے ذہن کی رَسائی دَلائل کے سمجھنے اور اُن میں ترجیح دینے تک نہیں ہے اُس کا حق نہیں کہ اُن میں دَخل دے۔ نبیٔ کریم ﷺسے نقل کیا گیا ہے کہ: علم کو ایسے لوگوں سے نقل کرنا جو اُس کے اَہل نہ ہو اُس کو ضائع کرنا ہے؛ مگر جہاں بددینی کی یہ حد ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کے صَریح اِرشادات پر لَب کُشائی ہر شخص کاحق سمجھا جاتا ہو، وہاں بیچارے عُلَما کا کیا شمار ہے؟ جس قدر اِلزامات رکھے جائیں کم ہیں۔ ﴿وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُوْنَ﴾. فصل سابع تتِمّہ: بچا ہوا۔ اِرتِباط: تعلُّق۔ تَقوِیت: قوّت۔ فَلاح: کامیابی۔ رَطبُ اللِّسان: بہت زیادہ ذکرکرنے والا۔ مُتَّبِع: اتباع کرنے والا۔ حتیٰ کہ: یہاں تک کہ۔ فَریفتہ: دیوانہ۔تابع دار: اطاعت کرنے والا۔ بَہبُودی: کامیابی۔بے بہرہ: ناواقف۔ مُدِّعیوں: دعویٰ کرنے والوں۔ رَبط: تعلُّق۔ ہم نشیں: ساتھی۔تَصرُّف: استعمال۔ تَعمِیل: عمل کرنے۔ پیشہ: تجارت۔ سَعی: کوشش۔دِل رَبودَہ: دل کھویا ہوا شخص۔ صَوت: آواز۔ کَر:بہرا۔کَور:اندھی۔ نوع: قِسم۔ مُقیَّد: پابند۔ رَضا جوئی: خوش نودی۔ مامُور: حکم دیاگیا۔ مُقتدا: امام۔ نِثار: قربان۔ تَرْسم نہ رَسی بہ کعبہ اے اعرابی!ءکِیں رہ کہ تُو مِیرَوِی بتُرکستان است: اے دیہاتی! مجھے ڈر ہے کہ تُو کعبہ تک نہ پہنچ پائے گا؛ اِس لیے کہ تُو جس راستے سے جارہا ہے وہ تُرکستان کا ہے۔ مُرادِ ما نصیحت بُود و کَردَیم ء حَوالَت باخدا کَردیم ورَفتیم: ہمارا مقصد نصیحت تھی سو کردی، حوالے خدا کے کیا اور چل دیے۔ (یہ فصل)گویا چھٹی فصل کا تَکمِلہ اور تتِمّہ ہے، اِس میں ناظِرین کی خدماتِ عَالِیہ میں ایک اہم درخواست ہے، وہ یہ کہ اکثراللہ والوں کے ساتھ اِرتِباط، اُن کی خدمت میں کثرت سے حاضری دِینی اُمور میں تَقوِیت اور خیروبرکت کا سبب ہوتی ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’أَلَا أدُلُّكَ عَلیٰ مِلَاكِ هٰذَا الأَمْرِ الَّذِي تُصِیْبُ بِہٖ خَیْرَ الدُّنیَا وَالاٰخِرَۃِ؟ عَلَیْكَ بِمَجَالِسِ أهلِ الذِّکرِ‘‘. الحدیث (مشکوۃ:۴۱۵) ترجَمہ: کیا تجھے دِین کی نہایت تَقوِیَت دینے والی چیز نہ بتاؤں جس سے تُو دِین ودنیا دونوں کی فَلاح کو پہنچے؟