فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہے: ﴿کَلَّا، بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوبِهِمْ مَا کَانُوایَکسِبُوْنَ﴾ (بے شک اُن کے قلوب پر زَنگ جما دیا اُن کی بداعمالیوں نے)۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ: حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: دو واعظ چھوڑتا ہوں: ایک بولنے والا، دوسرا خاموش، بولنے والا قرآن شریف ہے، اور خاموش موت کی یاد۔ حضورﷺ کا ارشاد سر آنکھوں پر؛ مگر واعِظ تو اُس کے لیے ہو جو نصیحت قَبول کرے، نصیحت کی ضرورت سمجھے، جہاں سِرے سے دِین ہی بے کار ہو، ترقی کی راہ میں مانِع ہو وہاں نصیحت کی ضرورت کِسے؟ اور نصیحت کرے گی کیا؟۔ حَسَن بصریؒ کہتے ہیں کہ: پہلے لوگ قرآن شریف کو اللہ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اُس میں غور وتدبُّر کرتے تھے، اور دن کو اُس پر عمل کرتے تھے، اور تم لوگ اُس کے حروف اور زبر زیر تو بہت دُرست کرتے ہو؛ مگر اُس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے، اُس میں غور وتدبُّر نہیں کرتے۔ (۲۰) عَن عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: إنَّ لِکُلِّ شَيئٍ شَرَفاً یَتَبَاهُونَ بِہٖ، وَإنَّ بَهَاءُ أُمَّتِي وَشَرَفُهَا اَلقُراٰنُ. (رواہ أبونُعیم في الحِلیۃ) ترجَمہ: حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا حضورِ اقدس ﷺکا یہ ارشاد نقل کرتی ہیں کہ: ہر چیز کے لیے کوئی شرافت واِفتخار ہوا کرتا ہے جس سے وہ تَفاخُر کیا کرتا ہے، میری امت کی رونق اور اِفتخار قرآن شریف ہے۔ زائل: ختم۔دائمی: ہمیشہ رہنے والا۔ حُسنِ سِیاق: مضمون کے تسلسُل کی اچھَّائی۔تناسُب: مناسب ہونا۔ارتِباط: جوڑ۔ تکذِیب: جھُٹلانا۔ ادِّعائے محبت: محبت کے دعویٰ۔عارِض: پریشانی۔عارضی: وَقتی۔ طَراوت: تازگی۔ اِضافہ: زیادتی۔ عَلیٰ وَجْہِ الْکَمَال: پورے طور پر۔جاہ: عزت۔ فائدہ:یعنی لوگ اپنے آباء واَجداد سے، خاندان سے اور اِسی طرح بہت سی چیزوں سے اپنی شرافت وبَڑائی ظاہر کیا کرتے ہیں، میری اُمَّت کے لیے ذریعۂ افتخار کلامُ اللہ شریف ہے، کہ اُس کے پڑھنے سے، اُس کے یاد کرنے سے، اُس کے پڑھانے سے، اُس پر عمل کرنے سے؛ غرض اُس کی ہر چیز قابلِ افتخار ہے، اور کیوںنہ ہو کہ محبوب کا کلام ہے، آقا کا فرمان ہے، دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا شَرف بھی اِس کے برابر نہیں ہوسکتا، نیز دنیا کے جس قدر کمالات ہیں وہ آج نہیں تو کَل، زائل ہونے والے ہیں؛ لیکن کلامِ پاک کا شَرف وکمال دائمی ہے، کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے، قرآن شریف کے چھوٹے چھوٹے اَوصاف بھی ایسے ہیں کہ اِفتخار کے لیے اُس میں کا ہر ایک کافی ہے، چہ جائیکہ اُس میں وہ سب اَوصاف کامل طور پر پائے جاتے ہیں، مثلاً: اُس کی حُسنِ تالیف، حُسنِ سِیاق، الفاظ کا تناسُب، کلام کا ارتِباط، گذشتہ اور آئندہ واقعات کی اِطِّلاع، لوگوں کے مُتعلِّق ایسے طَعَن کہ وہ اگر اُس کی تکذِیب بھی کرنا چاہیں تو نہ کرسکیں، جیسے کہ یہود کا باوجود ادِّعائے محبت کے موت کی تمنَّا نہ کرسکنا، نیز سننے والے کا اُس سے مُتأثِّر ہونا،پڑھنے والے کا کبھی نہ اُکتانا، حالاںکہ ہر کلام خواہ وہ کتنا ہی دل کو پیارا معلوم ہوتا ہو، مَجنون بنا دینے والے محبوب کاخط ہی کیوں نہ ہو، دن میں