فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اپنے کُرتے میں پیوند لگ رہاتھا۔ (طبقات ابنِ سعد) (۳)حضرت ابن زبیر کاحضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کوصدقے سے روکنا فَیَّاضی: سخاوت۔ فِقرہ: جملہ۔ نذر: مَنَّت۔ خوشامد: مَنَّت سَماجَت۔ عِتاب: سختی۔ تاب: برداشت۔ وَقعت: عظمت۔ حضرت عبداللہ بن زبیرص حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَاکے بھانجے تھے، اور وہ اُن سے بہت محبت فرماتی تھیں، اُنھوں نے ہی گویا بھانجے کوپالاتھا، حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کی اِس فَیَّاضی سے پریشان ہوکر -کہ خود تکلیفیں اُٹھائیں اور جو آئے وہ فوراً خرچ کردیں- ایک دفعہ کہہ دیا کہ: خالہ کاہاتھ کسی طرح روکنا چاہیے، حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کوبھی یہ فِقرہ پہنچ گیا، اِس پرناراض ہوگئیں کہ میرا ہاتھ روکناچاہتا ہے، اوراُن سے نہ بولنے کی نذر کے طور پرقَسم کھائی، حضرت عبداللہ بن زبیرص کو خالہ کی ناراضی کا بہت صدمہ ہوا، بہت سے لوگوں سے سفارش کرائی؛ مگر اُنھوں نے اپنی قَسم کاعذر فرمادیا،آخر جب حضرت عبداللہ بن زبیرص بہت ہی پریشان ہوئے تو حضورﷺ کی ننھیال کے دوحضرات کوسفارشی بناکر ساتھ لے گئے، وہ دونوں حضرات اجازت لے کر اندر گئے، یہ بھی چھُپ کر ساتھ ہولیے، جب وہ دونوں پردے کے پیچھے بیٹھے اور حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَاپردے کے اندر بیٹھ کر بات چیت فرمانے لگیں، تویہ جلدی سے پردے میں چلے گئے، اورجاکر خالہ سے لِپٹ گئے، اوربہت روئے اور خوشامد کی، وہ دونوں حضرات بھی سفارش کرتے رہے، اورمسلمان سے بولنا چھوڑنے کے مُتعلِّق حضور کے ارشادات یاد دِلاتے رہے، اور احادیث میں جو مُمانَعت اِس کی آئی ہے وہ سناتے رہے، جس کی وجہ سے حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَااِن احادیث میں جومُمانَعت اورمسلمان سے بولنا چھوڑنے پر جو عِتاب وارد ہواہے، اُس کی تاب نہ لاسکیں اور رونے لگیں، آخر مُعاف فرمادیا اور بولنے لگیں؛ لیکن اپنی اِس قَسم کے کَفَّارے میں بار بار غلام آزاد کرتی تھیں، حتیٰ کہ چالیس غلام آزاد کیے، اورجب بھی اِس قَسم کے توڑنے کاخیال آجاتا اِتناروتِیں کہ دُوپٹہ تک آنسوؤں سے بھیگ جاتا۔ (بخاری، باب الہجرۃ، ۲؍ ۸۹۷) فائدہ: ہم لوگ صبح سے شام تک کتنی قَسمیں ایک سانس میں کھالیتے ہیں،پھر اُس کی کتنی پرواہ کرتے ہیں؟ اِس کاجواب اپنے ہی سوچنے کا ہے، دوسراشخص کون ہر وقت پاس رہتا ہے جو بتاوے؟؛ لیکن جن لوگوں کے یہاں اللہ کے نام کی وَقعت ہے، اوراللہ سے عہد کرلینے کے بعد پورا کرنا ضروری ہے، اُن سے پوچھو کہ، عَہد کے پورا نہ ہونے سے دل پر کیاگزرتی ہے؟ اِسی وجہ