فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ترجَمہ:حضورِاقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا اِقرار کرنا جنت کی کُنجیاں ہیں۔ فائدہ: کُنجیاں اِس لحاظ سے فرمایا کہ، ہر دروازے کی اور ہر جنت کی کنجی یہ ہی کلمہ ہے؛ اِس لیے ساری کنجیاں یہی کلمہ ہوا، یا اِس لِحاظ سے کہ یہ کلمہ بھی دو جُزو لیے ہوئے ہے: ایک لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُکا اقرار، دوسرے مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ کااقرار؛ اِس لیے دو ہوگئے، کہ دونوں کے مجموعے سے کھل سکتا ہے۔ اَور بھی اِن روایات میں جہاں جہاں جنت کے دُخول یاجہنَّم کے حرام ہونے کا ذکر ہے اُس سے مراد پورا ہی کلمہ ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ: جنت کی قیمت لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُہے۔ (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) (۱۱) عَن أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَامِن عَبدٍ قَالَ:لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ فِي سَاعَۃٍ مِن لَیلٍ أَو نَهَارٍ إِلَّا طُمِسَتْ مَا فِي الصَّحِیفَۃِ مِنَ السَّیِّئَاتِ، حَتّٰی تَسکُنَ إِلیٰ مِثلِهَا مِنَ الحَسَنَاتِ. (رواہ أبویعلیٰ، کذا في الترغیب. وفي مجمع الزوائد: فیہ عثمان بن عبدالرحمن الزهري، وهو متروك. اھ ) ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو بھی بندہ کسی وقت بھی دن میں یا رات میں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہتا ہے، تو اعمال نامے میں سے بُرائیاں مِٹ جاتی ہیں اور اُن کی جگہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ فائدہ: برائیاں مٹ کر نیکیاں لکھی جانے کے متعلِّق بابِ اول فصلِ ثانی کے نمبر ۱۰؍ پر مُفصَّل گزر چکا ہے، اور اِس قِسم کی آیات اور روایات کے چند معنیٰ لکھے گئے ہیں، ہر معنیٰ کے اعتبار سے گناہوں کا اِس حدیث میں اعمال نامے سے مِٹانا تومعلوم ہوتا ہی ہے؛ البتہ اخلاص ہونا ضروری ہے، اور کثرت سے اللہ کا پاک نام لینا اور کلمۂ طیبہ کا کثرت سے پڑھنا خود بھی اخلاص پیدا کرنے والا ہے؛ اِسی لیے اِس پاک کلمے کا نام ’’کلمۂ اخلاص‘‘ ہے۔ (۱۲) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ: إِنَّ لِلّٰہِ تَبَارَكَ وَتَعَالیٰ عُمُوداً مِن نُوْرٍ بَینَ یَدَيِ العَرشِ، فَإِذَا قَالَ العَبدُ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، اِهتَزَّ ذٰلِكَ العُمُودُ، فَیقُولُ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالیٰ: اُسْکُنْ، فَیَقُولُ: کَیفَ أَسکُنُ وَلَمْ تُغفَرْ لِقَائِلِهَا؟ فَیَقُولُ: إِنِّي قَد غَفَرتُ لَہٗ، فَیَسْکُنُ عِندَ ذٰلِكَ. (رواہ البزار، وهو غریب؛ کذا في الترغیب. وفي مجمع الزوائد: فیہ عبداللہ بن إبراهیم بن أبي عمرو، وهو ضعیف جدا. اھ قلت: وبسط السیوطي في اللاٰلي علیٰ طرقہ، وذکر لہ شواهد) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: عرش کے سامنے نور کا ایک ستون ہے، جب کوئی شخص لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہتا ہے تو وہ ستون ہِلنے لگتا ہے، اللہ کا ارشاد ہوتا ہے کہ: ٹھہرجا،وہ عرض کرتا ہے: کیسے ٹھہروں حالاںکہ کلمۂ طیبہ پڑھنے والے کی ابھی تک مغفرت نہیں ہوئی؟ ارشاد ہوتا ہے کہ: اچھا مَیں نے اُس کی مغفرت کردی، تو وہ سُتون ٹھہرجاتاہے۔ فائدہ: مُحدِّثین حضرات رَحِمَہُمُ اللہُ کو اِس روایت میں کلام ہے؛ لیکن علامہ سِیوطیؒ نے لکھا ہے کہ: یہ روایت کئی طریقوں سے مختلف اَلفاظ سے نقل کی گئی ہے۔ بعض روایتوں میں اِس کے ساتھ اللہجَلَّ شَانُہٗکا یہ بھی ارشاد وَارِد ہے کہ: مَیں نے کلمۂ طیبہ اُس شخص کی زبان پر اِسی لیے جاری کرادیا تھا کہ اُس کی